ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2005 |
اكستان |
|
پائے، فتوحات ہو گئیں اوروہ مسائل نہیں پیدا ہوئے ۔ آقائے نامدار ۖ کی تعلیم پر عمل کی برکت تھی ۔یہ مارنا اُسی کو تھا جو لڑے باقی کو نہیںجو ہتھیار پھینک دے جو بھاگ جائے جو دروازہ بند کرلے وغیرہ وغیرہ چھوڑتے چلے جائو اُسے۔ اسلام قبول کرانے کے لیے جبر جائز نہیں ہے : اسلام قبول کرنے پر مجبور کرنا نہیں ہے چنانچہ آج بھی آپ دیکھ لیں یہ لبنان میں جو عیسائی ہیں نئے نہیں ہیںیہ اُس زمانے کے خاندان چلے آرہے ہیں۔ شام میں مصر میں اسکندریہ میں بڑی تعداد ہے اِن کی، بڑا تناسب ہے ۔ یہ چلے آرہے ہیںشروع سے، اسلام نے انہیں اسلام لانے پرمجبور نہیں کیا۔ ایک عورت کو آقائے نامدار ۖ نے دیکھا ہے ایک غزوہ میں کہ اُسے کسی نے مار دیا۔ اُس کی لاش دیکھی تو طبیعت پر گراں گزرا یہ اور فرمایا کہ اِس کی کیا ضرورت تھی؟ یہ کیا کہہ رہی تھی؟جو کچھ کہہ نہیں رہا اُس کو مارنے سے کیا فائدہ ، راہبوں کو تارک الدنیا لوگوں کو جوعبادتیں کررہے ہیں اپنے اپنے طرزپر ایک طرف بیٹھے ہیں پہاڑوں پر یاعبادت خانوں میں ہیں، انھیں کسی کو اسلام نے نہیں چھیڑا۔ تو عورت کی لاش پڑی تھی فرمایا کہ اِس کی کیا ضرورت تھی ؟ اورپھر آگے کے لیے منع فرمادیا کہ عورتوں کو نہ ماریں بچوں کو نہ ماریں ۔ یہ آداب تو ہیں ہی نہیں کہیں اور،اگر کسی فوج کے قوائد میں ہوں گے بھی تو شاید ہوں مگر وہ قانون کی عملی حد تک نہیں ۔ عمل کے اعتبار سے تو بدترین طبقہ ہے فوج کا، جو رویہ یہ اختیا رکرتا ہے کہ ستیاناس کردیتا ہے پیداوار کا اوراِس کا اوراُس کا اور سب ختم۔ جدھر سے گزر جائیں تباہی ہی تباہی ہے ،سڑکیں بھی ٹوٹ جاتی ہیں لیکن اسلام میں تو یہ نہیں ہے ۔ اسلام کا طرزتو اِس سے بالکل مختلف ہے اوروہی کامیاب بھی رہا۔اِس کی وجہ سے اتنے عر صہ حکومتیں رہیں بلکہ یہ کہ جہاں وہ پہنچ گئے ہیں وہاں آج تک پھر اسلامی حکومت ہی ہے تو رسول اللہ ۖ نے انسانوں کے ساتھ سلوک انسانیت کا بتلایا جانوروں کے ساتھ بتلایا جو کہ بتایا ہی نہیں جاتا۔ تو بہر حال سرورِ کائنات علیہ الصلٰوة والسلام نے فرمایا کہ جائو انہیں لے جائو اور لے جا کر جہاں سے اُٹھایا ہے اِن چوزوں کو اِن بچوں کو وہیں رکھ کر آئو اوراِن کی ماں کو بھی اِنہی کے ساتھ ۔تو رسول اللہ ۖکے بارے میں قرآن پاک میں ہے وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلاَّ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِیْنَ تمام عالموں کے لیے آپ کو رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے تواِن جانوروں کا بھی ایک عالم ہے۔( باقی صفحہ ٢٦ )