ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2005 |
اكستان |
|
ستطاعت ہے تو اُس پر حج فرض ہے، اگر بڑے کے پاس استطاعت نہ ہویا استطاعت کے باوجود وہ حج نہ کررہا ہوتو نہ اِس سے چھوٹے کا فریضہ ساقط ہوتا ہے، نہ اِسے مؤخر کرنے کا کوئی جواز پیدا ہوتا ہے۔ بیوی یا والدہ کو ساتھ لے جانے کا عذر : بعض لوگ وہ ہیں جن پر حج فرض ہے اور اُن کے پاس اِس قدر پیسے ہیں جس سے وہ خود تو حج کرسکتے ہیں البتہ اپنی بیوی یا والدہ کو حج پر لے جانے کی استطاعت نہیں رکھتے، لیکن وہ بیوی یا والدہ کے اصرار کی وجہ سے یا اپنی مرضی سے اِس انتظار میں رہتے ہیں کہ جب بیوی یا والدہ کوساتھ لے جانے کے قابل ہوں گے اُس وقت میاں بیوی یا والدہ کو لے کر دونوں ساتھ حج کرنے جائیں گے۔ واضح رہے کہ بیوی یا والدہ کو ساتھ لے جانے کے انتظار میں حج کو مؤخر کرنا دُرست نہیں ،اوربیوی یا والدہ کوبھی اپنی وجہ سے شوہر یا بیٹے کو حج فرض ادا کرنے سے روکنا درست نہیں۔ خاوند کو چاہئے کہ اِس وقت وہ خود حج ادا کرے پھر بعد میں اللہ تعالیٰ توفیق دیں تو بیوی کو بھی حج کرادے۔ اپنی شادی کا بہانہ : بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جب تک انسان کی شادی نہ ہوجائے اُس وقت تک حج فرض نہیں ہوتا خواہ کوئی عاقل بالغ ہو گیا ہو اور کتنا ہی مالدار کیوں نہ ہو، یہ بھی جہالت ہے کیونکہ حج فرض ہونے کا شادی بیاہ سے تعلق نہیں، لہٰذا اگر کسی شخص پر حج فرض ہوگیا ہو لیکن وہ غیر شادی شدہ ہو تب بھی اُس کو حج کرنا فرض ہے ،بلکہ ایک حدیث میں تو یہاں تک بھی ہے کہ حج نکاح سے مقدم ہے (یہ حدیث پہلے گزرچکی) لہٰذا شادی کے انتظار میں حج کو مؤخر کرنا گناہ ہے اوراگر کوئی سنت کے مطابق نکاح کا بندوبست کرے تو نکاح بھی جلدی ہوسکتا ہے اورخدانخواسہ بغیر حج کیے فوت ہوگیا تو آخرت میں مؤاخذہ کا اندیشہ ہے، اور کسی کو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ اپنی شادی تک زندہ بھی رہ سکے گایا نہیں، پھر اگر شادی اورحج دونوں سے پہلے ہی دُنیا سے رخصت ہوگیا تو اِس کی مثال ایسی ہی ہوگی نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے ہم بچیوں کی شادی کا مسئلہ : کچھ لوگ یہ تاویل پیش کرتے ہیں کہ بھائی پہلے ہی بچیاں سیانی گھر بیٹھی ہیں پہلے اِن کی شادی کے فرض