ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2005 |
اكستان |
|
گروی پر مکان لینا دینا : آج کل یہ طریقہ خوب رائج ہے کہ جو شخص اپنا مکان کرائے پر دینا چاہتا ہے وہ بجائے کرائے پر دینے کے کرایہ دارسے ایک بڑی رقم مثلاً پانچ لاکھ روپے یکمشت لے لیتا ہے اوراُس کو رہائش کے لیے اپنا مکان دے دیتا ہے کہ جب کرایہ دار مکان خالی کرکے واپس کرے یا مالک مکان واپس لے تو مالک مکان لی ہوئی رقم واپس کردے گا یہ گروی پر مکان لینا دینا کہلاتا ہے ۔ یہ طریقہ مالک مکان اورکرایہ دار دونوں ہی کے لیے پُرکشش ہے ۔ کرایہ دار سمجھتا ہے کہ اُس کو کچھ دینا نہیں پڑا اوراُس نے جو رقم دی وہ اُسے پوری واپس مل گئی جبکہ مالک مکان کو اگر کاروبار میں سرمایہ کی ضرورت ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ اِسے اِس طرح مطلوبہ سرمایہ مل گیا، اوراگر اُسے سرمایہ کی ضرورت نہ ہوتو وہ یہ سوچتا ہے کہ وہ یہ رقم بینک میں جمع کرادے گا جہاں سے اُس کو کم از کم رائج کرایہ کے بقدر'' باعزت طریقے'' سے نفع ملتا رہے گا اوراُس کو کرایہ وصول کرنے کے لیے ہر مہینے کرایہ دار کے پیچھے بھاگنا نہ پڑے گا۔ اگرہم اِس معاملہ کی حقیقت کو دیکھیں تو یہ سود کی صورت ہے کیونکہ مالک مکان نے جو یکمشت رقم وصول کی ہے اُس کی حیثیت قرض کی ہے ،اِس قرض کے مقابلہ میں وہ قرض خواہ کو اپنا مکان مفت رہائش کے لیے دیتا ہے جبکہ قرض پر جونفع حاصل کیا جائے وہ ''سود'' ہوتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے : عَنْ عَلِیٍّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَےْہِ وَسَلَّمَ کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَةً فَھُوَ رِبًا (کنز العمال) '' حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر وہ قرض جو نفع دے وہ سود ہے ''۔ بعض لوگ قرض کے مقابلہ میں مفت رہائش نہیں لیتے بلکہ کچھ تھوڑا سا کرایہ طے کرلیتے ہیں مثلاً اگر مکان کا واجبی کرایہ دوہزار روپے ماہانہ ہوتو وہ دوسو روپے ماہانہ بھی ساتھ میں طے کرلیتے ہیں۔ لیکن اس سے مسئلہ میں کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ قرض خواہ کو اب بھی اٹھارہ سوروپے ماہانہ کا فائدہ ہورہاہے اورچونکہ یہ قرض کی وجہ سے ہے اِس لیے سود ہے۔ گروی پر مکان لینے والے پر لازم ہوتا ہے کہ وہ مالک مکان کو رہائش کی مدت کا واجبی مروجہ یعنی عام