ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2005 |
اكستان |
|
موت کی یاد کا حکم ( حضرت مولانامفتی محمد سلمان صاحب منصور پوری ) جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو کثرت سے موت کو پیش ِنظر رکھنے کا حکم دیاہے۔ (١) حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ۖ نے ارشاد فرمایا : اَکْثِرُوْا ذِکْرَھَاذِمِ اللَّذَّاتِ فَِانَّہ مَاذَکَرَہ أحَدّ فِی ضِیْقٍ مِّنَ الْعَیْشِ اِلَّا وَسَّعَہ عَلَیْہِ وَلَا فِی سَعَةٍ اِلَّا ضَیَّقَہ عَلَیْہِ۔( رواہ البزار، شرح الصد ورللسیوطی ص ٤٧) لذتوں کو توڑنے والی چیز یعنی موت کو کثرت سے یاد کرو اُس لیے کہ جو بھی اسے تنگی کے زمانہ میںیاد کرے گا تو اُس پر وسعت ہوگی (یعنی اُس کوطبعی سکون حاصل ہوگا کہ موت کی سختی کے مقابلہ میں ہر سختی آسان ہے) اور اگر عافیت اورخوشحالی میں موت کویاد کرے گا تو یہ اُس پر تنگی کا باعث ہوگا (یعنی موت کی یاد کی وجہ سے وہ خوشی کے زمانہ میں آخرت سے غافل ہوکر گناہوں کے ارتکاب سے بچا رہے گا)۔ اِس حدیث سے معلوم ہوا کہ موت کی یاد ہر حال میں نفع بخش ہے۔ مصیبت کے وقت اِس کو یاد کرنے سے ہر مصیبت آسان ہوجاتی ہے ،اِسی لیے قرآن کریم میں صبر کرنے والوں کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ ''یہ وہ لوگ ہیں کہ جب اِن کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے توکہتے ہیں انا للہ وانا الیہ راجعون '' یعنی ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اوراللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔اسی طرح جب خوشحالی اور عافیت کے وقت موت کو یاد کیا جاتا ہے تو اِس کی وجہ سے آدمی بہت سے اُن گناہوں سے محفوظ ہوجاتا ہے جن کاداعیہ عموماً خوشحالی کے زمانہ میں قوت کے ساتھ اُبھرتا ہے۔ اسی لیے حدیث بالا میں موت کو لذت توڑنے والی چیز قراردیا گیا ہے۔ (٢) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اکرم ۖ سے پوچھا گیا کہ ایمان والوں میں کون سا شخص سب سے زیادہ عقل مند ہے ۔آپ نے فرمایا : اَکْثَرُھُمْ لِلْمَوْتِ ذِکْرًا وَ اَحْسَنُھُمْ لِمَا بَعْدَہ اِسْتِعْدَادًا اُولئِکَ الْاَکْیَاسُ۔ (رواہ ابن ماجہ ٣٢٤ ، شرح الصدور ٤٣)