ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2005 |
اكستان |
|
(١) تعجیل التوبہ : یعنی اگر اُس سے کوئی گناہ ہو جائے تو وہ جلد از جلد توبہ کرکے گناہ معاف کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ کہیں توبہ کے بغیرموت نہ آجائے۔ (٢) قناعة القلب : یعنی موت کو یاد رکھنے والا حرص وطمع میں مبتلا نہیں ہوتا بلکہ جو کچھ بھی اُسے میسر ہوتا ہے اُسی پر راضی رہتا ہے اوریہ قناعت اُسے طبعی سکون اوردِلی راحت عطا کرتی ہے ۔ وہ یہ سوچتا ہے کہ تھوڑی بہت زندگی ہے جس طرح بھی گزر جائے گزارلیں گے، زیادہ کی فکر کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ (٣) نشاط العبادة : یعنی موت کا استحضار رکھنے والا شخص جب عبادت کرتاہے تو پوری دلجمعی اور یکسوئی کی کوشش کرتا ہے ۔ اِس دلجمعی کی دووجوہات ہوتی ہیں، اول یہ کہ اُسے خطرہ رہتا ہے کہ پتہ نہیں آئندہ اُس کو عبادت کا موقع ملے کہ نہ ملے ، لہٰذا بھی اِسے جتنا اچھا بنالیں غنیمت ہی غنیمت ہے،دوسرے یہ کہ آخرت کی یاد کی وجہ سے اِسے عبادت پر ملنے والے عظیم اخروی بدلے کا کامل یقین ہوتا ہے جس کی بناء پر اُسے عبادت میں وہ کیف وسرور نصیب ہوتا ہے جو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ موت کو بھول جانے کے نقصانات : اس کے برخلاف جو شخص موت کو یاد نہیں رکھتا اورآخرت سے غافل رہتا ہے وہ تین طرح کی محرومیوں میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔ (١) تسویف التوبة : یعنی اگر اُس سے کوئی گناہ ہو جائے تو توبہ کرنے میں ٹال مٹول کرتارہتا ہے، اوراستغفارمیں جلدی نہیں کرتا اوربسااوقات اِسی حالت میں اُس کی موت آجاتی ہے ۔ (٢) ترک الرضا بالکفاف : جب موت کی یاد نہیں رہتی تو آدمی کی ہوس بڑھ جاتی ہے اوروہ ضرورت کے مطابق روزی پر راضی نہیں رہتا بلکہ ھل من مزید کی بیماری کا شکار ہوجاتا ہے ۔ موت سے غفلت کی بناپر منصوبوں پر منصوبے بنائے چلا جاتا ہے جس کا انجام یہ نکلتاہے کہ آرزوئیں رہ جاتی ہیں اورموت آکر زندگی کا تسلسل ختم کردیتی ہے۔ (٣) التکاسل فی العبادة : آدمی موت سے غافل رہتا ہے تو عبادت کرنے میں قدرتی طور پر سستی ظاہر ہوتی ہے اورنشاط کا فور ہو جاتا ہے ،اولاً تو عبادت کرتا ہی نہیں اورکرتا بھی ہے تو وہ طبیعت پر نہایت گراں گزرتی ہے ۔یہ گرانی صرف اِس بناء پر ہے کہ آدمی کو یہ استحضار نہیں رہتا کہ ہم سے مرنے کے بعد ان ذمہ