ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2005 |
اكستان |
|
داریوں کے بارے میں سوال کیا جانا ہے ،اوراگر خدانخوستہ وہاں رضائے خداوندی کے مطابق جواب نہ ہوا تو ایسی رُسوائی ہوگی جس کے مقابلہ میں دُنیا کی ساری رُسوائیاں اوربے عزتیاں ہیچ ہیں۔ (شرح الصدور ص٤٥) موت کو یاد کرنے کے چند ذرائع : احادیث ِطیبہ میں جہاں موت کو یاد رکھنے کی تلقین فرمائی گئی ہے وہیں بعض ایسے اعمال کی ترغیب بھی وارد ہے جو موت کو یاد رکھنے میں مؤثر اورمعاون ہوتے ہیں : (١) قبروں کی زیارت کرنا : اِن میں سب سے اہم عمل یہ ہے کہ گاہے بگاہے عام قبرستان جا کر قبر کی زندگی اورقبر والوں کے حالات کے متعلق غور کیا جائے۔ چنانچہ ایک روایت میںآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : '' زُوْرُوا الْقُبُوْرَ فَاِنَّھَا تُذَکِّرُ الْمَوْتَ '' (مسلم شریف ج١ ص٣١٤) قبروں کی زیارت کیا کرو اِس لیے کہ وہ موت کو یاد دلاتی ہیں۔اورایک روایت میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کُنْتُ نَھَیْتَکُمْ عَنْ زِیَارَةِ الْقُبُورِ۔اَلا فَزُوْرُوْھَا فَاِ نَّھَا تُرِ قُّ الْقَلْبَ وَتُدْ مِعُ الْعَیْنَ وَتُذَکِّرُ الْاٰخِرَةَ وَلَا تَقُوْلُوْا ھُجْرًا۔(رواہ الحاکم ، شرح الصد ور ص٤٩) میں تمہیں پہلے قبروں پر جانے سے منع کرتا تھا مگر اب سنو! تم لوگ قبروں پر جایا کرو کیونکہ وہ دِلوں کو نرم کرتی ہیں ، آنکھ سے آنسو جاری کرتی ہیں اورآخرت کی یاد دلاتی ہیںاور کوئی فحش بات مت کہا کرو۔ اس طرح کی احادیث میں قبرستان کو موجب عبرت قراردیا گیا ہے اورساتھ میں قبرستان جانے کا اصل مقصد بھی بتا دیا گیا کہ وہاں محض تفریح اورتماشہ کی غرض سے نہ جائے بلکہ اصل نیت موت کو یادکرنے اورآخرت کے استحضار کی ہونی چاہئے، مگر افسوس کا مقام ہے کہ آج ہمارے دلوں پر غفلتوں کے ایسے گہرے پردے پڑچکے ہیں اورقساوت کا ایسا مہلک زنگ لگ چکا ہے کہ اب قبرستانوں کو کھیل کود اورتماشوں کی آماجگاہ بنالیا گیا ہے، عرس کے نام سے اولیاء اللہ کی قبروں پر وہ طوفانِ بدتمیزی بپا ہوتا ہے کہ الامان الحفیظ اوراِس پر طرہ یہ کہ اِن سب کاموں کو بہت بڑے اجروثواب کے اعمال میں شامل کرنے کی شرمناک کوشش کی جاتی ہے ۔ اسی طرح آج جو قبرستان