ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2005 |
اكستان |
|
س کو کیا جواب دوگے؟ ہم نے عرض کیا کہ جی ہاں یا رسول اللہ !ضرور بتلائیے ، تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مومنین سے فرمائے گا کہ کیا تمھیں مجھ سے ملاقات پسند تھی، مومنین عرض کریں گے کہ ہاں ہمارے رب !تو اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ کیوں؟ تواہل ایمان عرض کریں گے ہمیں آپ کی مغفرت اورمعافی کی اُمید تھی، تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا میری مغفرت تمہارے لیے واجب ہوگئی ۔ (کتاب الزہد ص ٩٣) موت کے متعلق اصحابِ معرفت کے اقوال واحوال : حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ موت نصیحت کا انتہائی مؤثر ذریعہ ہے لیکن اِس سے غفلت بھی بہت زیادہ ہے۔ موت وعظ کے لیے کافی ہے اورزمانہ لوگوں میں جدائی پیدا کرنے کے لیے تیار ہے۔ آج جو لوگ گھروں میں ہیں وہ کل قبروں میں ہوں گے ۔ حضرت رجاء بن حیوة رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو شخص موت کو کثرت سے یاد کرے گا اُس کے دل سے حسد اور اتراہٹ نکل جائے گی، یعنی نہ تو وہ کسی دُنیوی نعمت کی بناپر ذ ہنی اُلجھن میں مبتلا ہوگا اورنہ ہی فرح ومسرت میں مست ہو کر معاصی کا ارتکاب کرے گا۔ حضرت عون بن عبداللہ رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس شخص کے دل میں موت کی یاد جم جاتی ہے وہ اگلے دن تک بھی اپنی زندگی کے رہنے کا یقین نہیں رکھتا ،کیونکہ کتنے ایسے دن تک پہنچنے والے ہیں کہ وہ موت کی وجہ سے دن بھی پورا نہیں کرپاتے اورکتنے لوگ کل کی اُمید رکھنے والے ہیں مگر کل تک نہیں پہنچ پاتے ۔ اگر تم موت اوراُس کی آمد کو دیکھ لو تو آرزو اوراُس کے دھوکہ کو ناپسند کروگے۔ اورآپ ہی سے مروی ہے کہ فرماتے تھے کہ آدمی جس عمل کی وجہ سے موت کو ناپسند کرتا ہے (یعنی گناہ اورمعصیت )اُسے فوراً چھوڑ دے پھر کوئی مشکل نہیں جب چاہے مرجائے۔ حضرت عمربن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ سے مروی ہے کہ آپ فرماتے تھے کہ موت کی یاد جس کے دل میں جگہ بنا لے تو وہ اپنے قبضہ کے مال کو ہمیشہ زیادہ ہی سمجھے گا(یعنی مزید مال بڑھانے کی فکر نہ کرے گا)۔ حضرت مجمع تیمی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ موت کی یاد ایک طرح کی مالداری ہے۔ حضرت کعب احبار رحمة اللہ علیہ سے مروی ہے کہ جو شخص موت کو پہچان لے اُس کے لیے دُنیا کی تمام مصیبتیں اور رنج وغم ہلکے ہو جائیں گے۔