ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2005 |
اكستان |
|
ریٹ کے مطابق کرایہ ادا کرے ، لیکن گروی کی حیثیت ختم ہو کر اجارہ فاسد کی حیثیت بن جاتی ہے۔ لو استقرض دراہم وسلم حمارہ الی المقرض یستعملہ الی شھرین حتی یوفیہ دینہ او دارہ لیسکنھا فھو بمنزلة الاجارة الفاسدة ان استعملہ فعلیہ اجرمثلہ ولا یکون رھنا (رد المحتار ص٣٤٣ ج ٥) فقہ کی کتابوں میں یہ قول بھی منقول ہے کہ گروی لینے والا مالک کی اجازت سے گروی کا استعمال کرسکتا ہے لیکن موجودہ دور میں اِس قول کا اعتبار نہیں کیونکہ جو بے لوث اورہمدردانہ اجازت پہلے کسی دور میں مقصور ہو سکتی تھی وہ اب بالکل مفقود ہے بلکہ اب تو قرض خواہ پہلے ہی سے نفع اُٹھانے کی شرط رکھتا ہے ، اِسی لیے عدم جواز کا قول ہی معتبر ہے ۔ لا الا نتفاع بہ مطلقا لا باستخدام ولا سکنی ولا لبس ولا اجارة ولا اعارة سواء کان من مرتھن او راھن الا باذن کل للآخر وقیل لا یحل للمرتھن لانہ ربا وقیل ان شرطہ کان ربا والا لا (درمختار ص٣٤٢ ج٥) قلت والغالب من احوال الناس انھم انما یریدون عندالدفع الانتفاع ولو لاہ لما اعطاہ الدراھم وھذا بمنزلة الشرط لان المعروف کالمشروط وھو ممایعین المنع (ردالمحتار ص٣٤٣ ج ٥) پگڑی پر دُکان لینا دینا : اِس کی صورت جو آج کل رائج ہے یہ ہے کہ مالک دُکان کرایہ دار سے ایک بڑی رقم مثلاً پانچ لاکھ لیتا ہے اورنسبتاً کچھ کم کرایہ مقرر کرتا ہے، پانچ لاکھ کی رقم قرض نہیں ہوتی کہ کرایہ دار کے چھوڑنے پر مالک ہی کو وہ واپس کرنی پڑے بلکہ اِس بات کے عوض میں ہوتی ہے کہ کرایہ دار کو اِس دُکان میں ایک پختہ حق حاصل ہو گیا ہے کرایہ دار وہ دُکان آگے کسی اور کو موجودہ وقت کے حساب سے پگڑی پردے سکتا ہے جس کا پندرہ بیس فیصد حصہ مالک دکان کو ملے گا۔ اگر دُکان کا مالک دُکان خالی کروانا چاہے تو وہ بھی موجودہ ریٹ کے حساب سے رقم دینے کا پابند ہوگا۔ یہ طریقہ رشوت کا ہے اورناجائز وحرام ہے۔ اس کے متبادل دوجائز صورتیں ہیں :