ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2005 |
اكستان |
|
گلد ستۂ احادیث حضرت مولانا نعیم الدین صاحب دو فرقوں کے لیے اسلام میں کچھ حصہ نہیں عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَےْہِ وَسَلَّمَ صِنْفَانِ مِنْ اُمِّتِیْ لَیْسَ لَھُمَا فِی الْاِسْلامِ نَصِیْب،اَلْمُرْجِیَةُ وَالْقَدْرِیَة ُ ( ترمذی بحوالہ مشکٰوة صفحة ٢٢) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ۖ نے فرمایا : میری اُمت میں دوفرقے ایسے ہیں جن کو اسلام کا کچھ بھی حصہ نصیب نہیں ہے وہ مُرجیہ اور قدریہ ہیں۔ ف : حدیث پاک میں جن دو فرقوں کا تذکرہ کیا گیا ہے اُن میں سے پہلا فرقہ ''مُرْجِیَۂ ضَالَّہْ ''ہے جو بندہ کے تمام افعال کو تقدیر کے حوالہ کرتے ہوئے یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ بندہ کو اپنے کسی فعل وعمل میں کوئی دخل اوراختیار نہیں ہے ،وہ مجبور ِ محض اوربے اختیار ہے قدرت اُس سے جیسے عمل صادر کراتی ہے وہ کرتا ہے ، وہ نہ کسی عمل کے ازخود کرنے پر قادرہے اورنہ کسی عمل سے باز رہنا اُس کے اختیار میں ہے۔ دُوسرا فرقہ '' قَدْرِیَہْ '' ہے جو سرے سے تقدیر ہی کا منکر ہے ۔اُس کا عقیدہ یہ ہے کہ بندہ کے اعمال میں تقدیرِ الٰہی کا کوئی دخل نہیں ہے، بندہ اپنے افعال کاخود خالق اوراپنے افعال میں قادر ومختار ہے، وہ جو عمل کرتا ہے اپنی قدرت واختیار کی بناء پر کرتا ہے۔ مُرْجِیَہْ اور قَدْرِیَہْ دونوں گمراہ فرقے ہیں، اِن میں سے پہلے فرقہ نے تقدیر کے معاملہ میں افراط سے کام لیا ہے کہ سب کچھ تقدیر کو سمجھ کر اپنے آپ کو مجبور و بے بس سمجھ لیا ہے اوردُوسرے فرقہ نے تفریط سے کام لیا ہے کہ سرے سے تقدیر ہی کا انکار کردیاہے اوراپنے آپ کو قادر ومختار سمجھ بیٹھا ہے۔ آج کل بھی کچھ لوگ ایسے پائے جاتے ہیں جو دَرپردہ اِن فرقوں کے عقائد رکھتے ہیں، ہمیں ایسے لوگوں سے بچتے ہوئے اہلِ سنت والجماعت کے افکار ونظریات پر چلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔