ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2005 |
اكستان |
|
ایک دانشمند کا قول ہے کہ دلوں میں عمل کی زندگی پیدا کرنے کیلیے موت کی یاد سب سے زیادہ مؤثر ہے۔ ایک عورت نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اپنے دل کی سختی کی شکایت کی تو آ پ نے نصیحت فرمائی کہ تم موت کو کثرت سے یاد کیا کرو تمہارادل نرم ہو جائے گا۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے نقل کیا گیا ہے کہ آپ فرماتے تھے کہ قبر عمل کا صندوق ہے اور موت کے بعد اُس کی خبر ملے گی (شرح الصدور ص٤٦۔٤٨)۔ صالحین میں سے ایک شخص روزانہ شہر کی دیوار پر کھڑے ہو کر رات میں یہ آواز لگاتا تھا ''چلو قافلے کے چلنے کا وقت آگیا ہے ۔'' جب اُس کا انتقال ہو گیا تو شہر کے حاکم کو یہ آواز نہیں سُنائی دی۔ تحقیق پر پتہ چلا کہ اُس کی وفات ہو گئی تو امیر نے یہ اشعار پڑھے۔ مَازَالَ یَلْھَجُ بِالرَّحِیْلِ وَذِکْرِہ حَتّٰی اَنَاخَ بِبَابِہِ الْجَمَّالُ فَاَصَابَہ مُتَیَقِّظًا مُتَثَمِّرًا ذَا اُھْبَةٍ لَمْ تُلْھِہِ الْآمَالُ ''وہ برابر کوچ کی آوازاوراُس کے تذکرے سے دلچسپی لیتا رہا یہاں تک کہ خود اُس کے دروازے پر اُونٹ بان (موت کے فرشتے کی طرف اشارہ ہے )نے پڑائو ڈالا، چنانچہ اُسے بیدار، مستعد اورتیار پایا۔ کھوٹی آرزوئیں اُسے غافل نہ کرسکیں ''۔ (التذکرة فی احوال الموتی الآخرة ۔٠ ١) علامہ تیمی فرماتے ہیں کہ دوچیزوں نے مجھ سے دُنیا کی لذّت چھین لی ہے ۔ ایک موت کی یاد ، دوسرے میدان محشر میں اللہ رب العالمین کے سامنے حاضری کا استحضار۔(التذکرة فی احوال الموتی الآخرة ۔٠ ١) حضرت عمر بن عبدالعزیز کا معمول تھا کہ وہ علماء کو جمع فرماکر موت ، قیامت اورآخرت کا مذاکرہ کیا کرتے تھے اورپھر اِن احوال سے متاثر ہو کر سب ایسے پھوٹ پھوٹ کر روتے تھے گویا کہ اُن کے سامنے کوئی جنازہ رکھا ہوا ہے ۔ (التذکرة فی احوال الموتی الآخرة ۔٠ ١) موت کو یاد کرنے کے بعض فوائد : علامہ سیوطی لکھتے ہیں کہ بعض علماء سے منقول ہے کہ جو شخص موت کو کثرت سے یاد رکھے اُس کو اللہ تبارک وتعالیٰ تین باتوں کی توفیق مرحمت فرماتا ہے ۔