ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2005 |
اكستان |
|
کرگئی جب اُدھڑی ہوئی عمارتوں ، ملبے کے ڈھیروں ، بکھری پڑی نعشوںاورزخمیوں کی چیخ وپکار نے سارا منظر ہی بدل ڈالا تھا۔ ہم بھی ٨اکتوبر کو بیدار ہو کر سنبھل ہی رہے تھے کہ زمین تھرتھرائی اور آٹھ دس سیکنڈ کے اندر سارا نقشہ ہی تبدیل ہوگیا۔ چنددنوں بعد رمضان المبارک کا مقدس مہینہ آیا تو بھی امریکہ نے اپنی خوں آشامی کو لگام نہ ڈالی اورسحر وافطار کی سعید ساعتوں میں بھی آگ اوربارُود کا کھیل جاری رہا اورہم اُس کا ساتھ دیتے رہے ۔ ٹھیک چار سال بعد سحر وافطار کے مشکبوموسموں میں اہل پاکستان کو بھی اسی کٹھن آزمائش سے دوچار ہونا پڑا ۔ امریکہ کا ساتھ دے کر ہم پتھر کے زمانے میں دھکیلے جانے سے بچ گئے لیکن ٹھیک چار سال بعد جانے کس نے چشم زدن میں ٢٨ ہزار مربع میل علاقہ پتھر کے زمانے میں دھکیل دیا ۔ہم تورابورا بننے سے محفوظ ہو گئے اورٹھیک چار سال بعد جانے کس نے ہماری ہزاروں چھوٹی بڑی بستیوں کو تورابورا بناد یا ۔ چار سال پہلے ہم لٹے پٹے افغانوں کو تباہ حال بستیوں کے باہر ماتم کناں دیکھتے اورامریکیوں سے نہیں کہہ سکتے تھے کہ یہ ظلم نہ کرو۔ آج ہمارے لٹے پٹے ہم وطن ملبوں کے ڈھیر پر بیٹھے رورہے ہیں اورپوری قوم اَنگاروں پر لوٹ رہی ہے ۔ کل ہم بازو، ہاتھ اورٹانگیں کٹے افغان بچوں کی تصویریں دیکھتے تو آنکھیں سُلگ اُٹھتی تھیں ، آج ہمارے ہسپتالوں کے وارڈ اور برآمدے ایسی تصویروں سے بھر گئے ہیں۔ کل ہم دشت ِ لیلیٰ کی بے گورکفن لاشوںکے نوحے لکھ رہے تھے ، آج اپنے پیاروں کی بے گورکفن لاشوں پر بین کررہے ہیں ۔ کل ہیلی کاپٹروں سے گرائے گئے خوراک کے پیکٹوں کی طرف لپکتے بے حال افغانیوں کو دیکھ کر دل دہل جاتا تھا اورآج اپنے فاقہ زدہ عوام کو اِن پیکٹوں کی طرف دیوانہ وار لپکتے دیکھنا پڑا ۔ امریکہ کی دھونس پر ہم نے جن کچی بستیوں سے افغانوں کو باہر دھکیل دیا تھا، آج اپنوںکے لیے ویسی ہی بستیاں بسانا پڑ رہی ہیں ۔ پشاور کے نواح میں اذاخیل کیمپ جو کبھی افغان مہاجرین سے آباد تھاآج اس میں اپنے ہی وطن کے ''مہاجرین ''بسائے جارہے ہیں۔