ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2005 |
اكستان |
|
(١) مالک دکان مروجہ کرائے پر دُکان دے اور کرایہ کا معاملہ مثلاً پانچ سال کے لیے طے کرلے۔ اگر کرایہ دس ہزار ماہانہ ہوتو وہ پانچ سال کا آدھا کرایہ شروع میں وصول کرلے جوکہ تین لاکھ روپیہ بنتا ہے ۔پھر ہر مہینے آدھا کرایہ یعنی پانچ ہزار ماہانہ لیتارہے۔ پانچ سال کے بعد چاہے تو معاملہ کی تجدید کرلے اور دوبارہ نصف کرایہ یک مشت لے لے۔ (٢) مالک دُکان اپنی آدھی دُکان کرایہ دار کے ہاتھ فروخت کردے اورآدھی دُکان کرایہ پردے دے۔ اِس صورت میں یک مشت رقم مالک کو صرف پہلی دفعہ اپنی آدھی دُکان فروخت کرنے پر ملے گی، آئندہ نہیں ملے گی۔ اگر کرایہ دار اپنا نصف حصہ کسی دوسرے کو فروخت کرے تو مالک دُکان کو شریک ہونے کی وجہ سے شفعہ کے حق کی بنیاد پراُ سے لینے کاحق حاصل ہوگا ۔ اپنے شریک کو کرائے پر دینے کے جواز کا حوالہ یہ ہے : وتفسد الاجارة ایضا بالشیوع بان یوجر نصیبا من دارہ او نصیبہ من دار مشترکة من غیر شریکہ او من احد شریکیہ .......الا اذا آجر کل نصیبہ أوبعضہ من شریکہ فیجوز وجوزاہ بکل حال (درمختار ص ٣٣ ج٥) کرایہ پر دیتے ہوئے ایڈوانس لینا : اب یہ رواج بھی چل پڑا ہے کہ مالک اپنی دکان کسی کو کرایہ پر دیتا ہے ،کرایہ عام ریٹ کے مطابق ہوتا ہے لیکن مالک کرایہ دار سے ایک بڑی رقم یک مشت ایڈوانس کے نام سے لیتا ہے ۔ کسی وقت میں یہ رقم سیکورٹی یا گروی کے طورپر لی جاتی ہوگی لیکن اب یہ قرض کے طورپر لی جاتی ہے ۔اگر سیکورٹی کے طورپر لی جائے تو یہ مالک کے پاس امانت ہوگی اوراُس کواختیار نہیں ہوگا کہ وہ اِس کو اپنے استعمال میں لا سکے ۔اور اگر وہ قرض کے طورپر ہوتو کرایہ کے معاملہ میں قرض کا مطالبہ کرنا ایک فاسد معاملہ ہے جو خود کرایہ کے معاملہ کو فاسد کردیتا ہے، لہٰذا ایڈوانس کے طورپر رقم لینے کے رواج کو ختم کرنا چاہیے اوراگر لیں تو اِس کو امانت سمجھیں اوراِس کو اپنے ا ستعمال میں نہ لائیں۔ اگر کسی کو یک مشت رقم کی ضرورت ہوتو اِس کی یہ تدبیر کی جاسکتی ہے کہ کرایہ کا معاملہ مثلاً پانچ سال کے لیے کیا جائے۔ کرایہ اگر چار ہزار روپے ماہانہ ہوتو پانچ سال کا آدھا کرایہ جو ایک لاکھ بیس ہزار بنتا ہے پہلے لے لیں اورآدھا کرایہ یعنی دوہزار روپے ماہانہ لیتے رہیں۔