ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2005 |
اكستان |
|
دے کر اپنے سر کی کلغی بنالیا ۔ایسا پہلی بار ہوا کہ پاکستان نے ایک مسلم ہمسایہ ملک پرحملے کے لیے اپنے ہوائی اڈے اپنی بندرگاہیں ، اپنی انٹیلی جنس اوراپنا تعاون ایک غیر مسلم ملک کے قدموں میں ڈال دیا۔ صرف پہلے برس ہماری سرزمین سے امریکی طیاروںنے 57800 اُڑانیں بھریں۔ پاکستان کے لوگوں کے لیے یہ روزوشب بڑے ہی کٹھن تھے ہمارے تعاون سے افغانستان کی بستیاں غارت ہوئی ، نہتے لوگ خاک وخون میں نہا گئے۔ معصوم بچے آگ اوربارُود کا رزق ہو گئے، قلعہ جنگی ، تورابورا اوردشت ِ لیلیٰ جیسی المناک کہانیاں رقم ہوئیں اوروہ کچھ ہوا جس کے تذکرے سے بھی کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ اس قہر کا نشانہ وہ قبیلہ بنا جو تمام تر کوتاہیوں کے باوصف اللہ اوررسول ۖ کا نام لیوا تھا اورجس کی نس نس میں پاکستان کی لازوال محبت بھری تھی۔ مجبوری کی اِس جنگ کے لیے ہمیں کچھ دلیلیں تراشنا پڑیں، یہ کہ ہم امریکہ کا ساتھ نہ دیتے تو وہ ہمیں پتھروں کے زمانے میں دھکیل دیتا، وہ ہمارا تورابورا بنا دیتا، یہ کہ اِس سے ہمارا کشمیر کاز مضبوط ہو گا اوریہ کہ اس سے ہماری معیشت نہایت قوی ہو جائے گی ۔لیکن چار سال بعد گردوپیش پر نگاہ ڈالیں تو خوش گمانیوں کے ملبے اورخوابوں کی کرچیوں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا اور لاتعداد مماثلتوں اورمشابہتوں کا بھید بھرا سلسلہ سوچ کی چولیں ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ امریکہ نے پاکستان کے تعاون سے ، افغانستان کی بستیوں کو اپنے بموں اورمیزائلوں کا نشانہ بنانے کا آغاز چار سال پہلے اکتوبر کے ا سی نیم خنک مہینے میں کیا تھا ۔ وہ ٧اور٨ اکتوبر ٢٠٠١ء کی درمیانی شب تھی جب جلال آباد ، قندھار، کابل اورمزار شریف پر چالیس کے لگ بھگ امریکی طیاروںنے وحشیانہ بمباری کا آغاز کیا تھا۔ یہ طیارے جہاں کہیں سے بھی آئے انہوں نے ہماری ہوائوں اورفضائوں میں سفرکیا، بھید بھری پراسراریت یہ ہے کہ ہمارے اُوپر ٹوٹنے والی قیامت نے بھی ٧اور ٨ اکتوبر کی درمیانی شب زمین کے نیچے ہلچل شروع کی۔ افغان عوام کو ٨اکتوبر کی صبح پتہ چلا کہ وحشت وبربریت کیا کہانی رقم