ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2005 |
اكستان |
|
یَا رَسُوْلَ اللّٰہ (صلی اللّٰہ علیہ وسلم )کَیْفَ بِمَنْ کَانَ کَارِھًا قَالَ یُخْسَفُ بِھِمْ وَلَکِنْ یُّبْعَثُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ عَلٰی نِیَّتِہ ۔(ابوداؤد کتاب المھدی ) اے اللہ کے سچے رسول اُس لشکر والوں کے ساتھ جو لوگ بہ مجبوری (مثلاً جبری بھرتی سے) آگئے ہوں گے اُن کا کیا ہو گا؟ ارشاد فرمایا وہ بھی دھنسا دے جائیں گے لیکن ہر شخص قیامت کے دن اپنی نیت کے مطابق اُٹھایا جائے گا ۔ یعنی جو لوگ جبراً ساتھ لیے گئے ہوں گے اُن کا حشر اُن کی نیتوں کے مطابق ہوگا۔ حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کی پہلی والی روایت میں ہے کہ : فَاِذَا رَاَی النَّاسُ ذَلِکَ اَتَاہُ اَبْدَالُ الشَّامِ وَعَصَائِبُ اَھْلِ الْعِرَاقِ فَیُبَا ےِعُوْنَہ جب یہ یہ دیکھیں گے تو شام کے ابدال (اولیاء کرام )اورعراق کے ( بہترین لوگ ) گروہ در گروہ اِن کے پاس آئیں گے اوراِن سے بیعت ہوں گے۔ اِن کی مدد کرنے والے اہلِ ماوراء النہر بھی ہوں گے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : یَخْرُجُ رَجُل مِّنْ وَّرَآئِ النَّہْرِ یُقَالُ لَہ الْحَارِثُ حَرَّاث عَلٰٰی مُقَدَّمَتِہ رَجُل یُقَالُ لَہ مَنْصُوْر یُوَطِّیئُ اَوْ یُمَکِّنُ لِاٰلِ مُحَمَّدٍکَمَامَکَّنَتْ قُرَیْش لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَجَبَ عَلٰی کُلِّ مُوْمِنٍ نَصْرُہ اَوْقَالَ اِجَابَتُہ ۔ (ابودا ؤد کتاب المہدی) ایک شخص وراء النہر سے چلے گا اُسے حارث کہا جاتا ہوگا وہ حراث (یعنی کاشت کرنے والا) ہوگا اُس کے لشکر کے اگلے حصہ مقدمة الجیش پر مامور شخص کو منصورکہا جاتا ہوگا وہ اٰلِ محمد ۖ کے لیے اُن کے مضبوطی سے جمنے کے لیے موثر طرح کام کرے گا جیسے (قبائل قریش نے اسلام قبول کرنے کے بعد)جناب رسول اللہ ۖ کے (دین کے)لیے استحکام کا کام کیا، ہر ایمان والے شخص پر اُس کی مدد واجب ہے ۔ اِس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت ماوراء النہر یعنی دریائے سیحون کے پار علاقوں میں اسلام نہایت جوش سے اُ بھر چکا ہو گا، واللہ تعالیٰ اعلم۔