ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2004 |
اكستان |
|
ہوئیں تو قرعہ اندازی ہوگی۔ ہم مسلمانوں کا خیال ہے کہ جس کا بُلاوا وہاں سے آتا ہے وہی جا سکتا ہے مگر جب وہ درخواست ہی دینے کے لیے نااہل ہوتو پھر یہ بلاوے والاعقیدہ تو دم توڑ دے گا۔ پانچ سال تک تو یہ سلسلہ چلے گا بڑے بچوں کا کیا قصور ہے ہم ان کو حج جیسے فریضے سے دور رکھ رہے ہیں اسلام میں غیر اسلامی باتیں فروغ دے رہے ہیں ۔پہلے وزارتِ مذہبی اُمور حج اور عمرہ کمیٹیاں بناتی تھیں ان سے مشاورت کرکے حج پالیسی بنتی تھی مگر ہماری بیورو کریسی نے جو عوام کی آراء سے پہلے ہی بیزار ہوتی ہے بڑی خوبصورتی سے وزیر مذہبی امور کو عوام سے دور کرکے یہ مہنگی حج پالیسی بنا کر تھمادی ۔وزیر مذہبی اُمور نے بھی بغیر مشاورت کیے کابینہ میں پیش کردی ۔یار لوگوںنے سمجھا ہوگا کہ دینی معاملہ ہے اس پر بحث غیر شرعی سمجھی جائے گی لہٰذا جلدی سے منظورمنظور اور پھر منظور ہے کہہ کر جان چھڑائی ۔ آج تک یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ دنیا میں بحری سفر اب بہت بڑھ چکا ہے وہ سستا بھی ہوتا ہے اور آسان بھی، ہم نے کیوں اس کو ختم کردیا ہے اور کرایہ وغیرہ ملاکر کراچی اور کوئٹہ کے لیے 1,00,215 روپے ہے مگر بقایا جگہوں کے لیے 1,05,362روپے ہے۔ عوام کو سمجھایا جائے اگر کوئی سکھر ، حیدرآباد اور ملتان جو کراچی ، کوئٹہ سے کم فاصلے پر واقع ہیں ان سے کس خوشی میں ٥ہزار ایک سو سینتالیس (5147) روپے زیادہ وصول کیے جارہے ہیں ۔بے شک لاہور ،فیصل آباد اور پشاور کا فاصلہ زیادہ ہے ان سے 5147 روپے وصول کرنے کا جواز ہو سکتاہے ۔ملتان ،فیصل آباد ، کوئٹہ اورسکھر سے پروازیں ڈائریکٹ نہ چلانے کا کیا جواز ہے جبکہ ان تمام ہوائی اڈوں سے بڑے جہاز روز مرہ کی پروازوں کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔ بلاوجہ انہیں کراچی یا لاہور لاکر اضافی تکلیف کیوں دی جارہی ہے جبکہ وہاں حاجی کیمپ کی سہولتیں بھی موجود ہیں ۔ یہ بات بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ چھ چھ ماہ قبل ہم حاجیوں سے یکمشت15ارب روپے وصول کرلیتے ہیں ایک ارب روپے اس کا منافع آج تک خاموشی سے حکومت بغیر ہلدی پھٹکری لگے خود کھا رہی ہے۔ ملک بھارت جو غیر اسلامی ملک ہے حج سے چند دن پہلے تک قسطوں میں حج کی رقمیں جمع کرتا ہے پورے بھارت سے جو رقبہ میں ہم سے بہت بڑا ہے حج کی رقم ہر جگہ سے ایک ہی وصول کی جاتی ہے۔ حکومت اس میں معاونت کرتی ہے پچھلے سال حاجیوں سے 65,000 روپے لیے گئے تھے وہ بھی آسان اقساط میں۔ ان کی رہائش کا معیار ہم سے بدرجہا بہتر ہوتاہے۔اس کے شفاخانے ہم سے بہتر اور ان کے پاس قیمتی ادویات ہوتی ہیں،ہمارے بیشتر حاجی انہی کے اسپتال جا کر فیض یاب ہوتے ہیں ۔اول تو ہمارے شفاخانے نظر ہی نہیں آتے علاوہ پاکستان ہائوس کا اگر کہیں کوئی گشتی شفاخانہ نظر آ بھی گیا تو چند گولیاں معمولی شربت اورکیپسول کے سوا کچھ نہیں ملے گا ۔منٰی اور عرفات میں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مدینہ کا 300 ریال وصول کیاجائے گا جبکہ 300 ریال میں مدینہ میں ہوٹل کا کمرہ مل جاتا ہے ۔بھارت والے مدینہ کا کمرہ 100 ریال اور مکہ کا کمرہ