ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2004 |
اكستان |
|
٭ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ بنی عامر کا ایک دیہاتی شخص پیغمبر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ مجھے یہ کیسے پتہ چلے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں؟تو آپ نے فرمایا کہ اگر میں اس درخت کی ڈالی کو بلائوں تو کیا تم میرے رسول ہونے کی گواہی دے دوگے؟ تو اُس دیہاتی نے کہا کہ ہاں ! چنانچہ آپ نے سامنے کے پیڑ کی ایک ڈالی کو بلایا پس اچانک وہ ڈالی درخت سے باقاعدہ نیچے اُتری اورزمین پر آک چلنے لگی تا آنکہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوگئی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس نے فرمایا کہ جا اپنی جگہ واپس چلی جا ،چنانچہ وہ اپنی جگہ واپس لوٹ گئی ۔یہ دیکھ کر اُس دیہاتی شخص نے کلمہ شہادت پڑھ لیا ۔ ( الخصائص الکبرٰی ٢/٦٠،دلائل النبوة ٦/١٥) ٭حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دیہاتی نے پیغمبر علیہ السلام کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں ایمان تو لے آیا ہوں لیکن آپ کوئی ایسی نشانی دکھلا دیجیے جس سے میرے یقین میں اور اضافہ ہو جائے تو آپ ۖ نے فرمایا کہ ''تم کیا چاہتے ہو؟'' تو اُس دیہاتی نے کہا کہ آپ اس (سامنے نظر آنے والے)درخت کو بلا کر دکھلائیے! تو آپ ۖ نے فرمایا کہ تم اس درخت کے پاس جا کر اُسے میرے پاس بلالائو ۔چنانچہ وہ دیہاتی درخت کے پاس آیا اور درخت سے کہا کہ رسول اللہ ۖکے حکم کی تعمیل کر ! یہ سنتے ہی وہ درخت دائیں اور بائیں جانب اتنا جھکا کہ اس کی جڑوں کے ریشے کٹ گئے اور پھر وہ اس دیہاتی کے ساتھ چل کر پیغمبر علیہ السلام کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوگیا اور عرض کیا : السلام علیک یا رسول اللّٰہ۔ یہ ماجرا دیکھ کر دیہاتی بول اُٹھا حسبی ، حسبی (بس کافی ہے، بس کافی ہے ) اس کے بعد آنحضرت ۖ نے درخت سے فرمایا کہ جا اپنی جگہ پر واپس چلا جا ، چنانچہ وہ لوٹ گیا اور اپنی جڑوں پر قائم ہو گیا، بعد میں اُس دیہاتی شخص نے عرض کیا کہ حضرت! مجھے اپنے دست وپابوسی کی اجازت عطا فرمائیے ! آپ نے اجازت دے دی ،پھر عرض کیا کہ حضرت ! مجھے اجازت دیجئے کہ میں آپ کے سامنے سجدہ ریز ہوجائوں ، تو آپ نے فرمایا کہ کسی مخلوق کے لیے دوسری مخلوق کے لیے سجدہ جائز نہیں ہے (الخصائص الکبرٰی ٢/٥٩)۔ ٭مسلم شریف میں حضرت جابر کی طویل روایت ہے جس میں انہوں نے آنحضرت ۖ کے متعدد واقعات ومعجزات ذکر فرمائے ہیں اُنہی میں سے ایک واقعہ خود انہوںنے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ایک سفر کے دوران پیغمبر علیہ السلام قضائے حاجت کے لیے میدان میں تشریف لے گئے تو وہاں چھپنے کی کوئی مناسب جگہ نہیں تھی ۔ البتہ میدان کے کنارے پر دودرخت تھے ،پیغمبر علیہ السلام اولاً اُن میں سے ایک درخت کے پاس تشریف لائے اوراُس کی ایک ٹہنی پکڑ کر فرمایا کہ ''اللہ کے حکم سے میرے تابع بن جا''چنانچہ وہ پیڑ آپ کے ساتھ اس طرح چلنے لگا جیسے لگام والی اونٹنی آدمی کے ساتھ چلتی ہے ۔پھر اُس کو لے کر آپ دوسرے درخت کے پاس پہنچے اور اُس کو بھی باذن خداوندی اپنے ساتھ لے لیا اور درمیان میدان میں لا کر دونوں درختوں کو ملنے کا حکم دیا چنانچہ وہ دونوں مل گئے (آپ ۖ نے اِن کی آڑ میں ضرورت