ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2003 |
اكستان |
ترک نہ کردیں بلکہ تہجد بھی پڑھیںچنانچہ حضرت عمر نے عشاء کے بعد تراویح پڑھنے والے نمازیوں سے مخاطب ہوکر فرمایا تم یہ نماز (یعنی تراویح)پڑھ رہے ہو اس سے وہ نماز افضل ہے جس سے تم لوگ سوجاتے ہو یعنی اخیررات میں نمازِ تہجداس سے آپ کا مقصد تراویح کے ساتھ تہجد کی ترغیب دینا تھا ۔ پس حضرت عائشہ کی یہ حدیث رمضان کے قرینہ سے تہجد پر محمول ہے ۔البتہ بعض حضرات نے غلط فہمی کی بناء پر اس کو تراویح سے جوڑدیا ہے لیکن انہوںنے اس قرینہ کا کوئی جواب نہیں دیا۔اور اگر بالفرض والمحال اس حدیث کا تعلق تراویح کے ساتھ ہوتو اس میں صرف آٹھ رکعات باجماعت کا ذکر ہے کل تراویح کا ذکر نہیں یعنی رسول اللہ ۖ نے صحابہ کرام کوباجماعت تراویح صرف آٹھ رکعات اور وتر پڑھائے ہیں باقی ان آٹھ رکعات اوروتر سے پہلے یا ان کے بعدانفراداً پڑھتے ہوں گے یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر نے جب تراویح باجماعت کا عمل شروع کیا تو پہلے صرف اتنی رکعات باجماعت شروع کرائیں جن کی جماعت نبی پاک ۖسے ثابت تھی یعنی گیارہ رکعات لیکن جب یہ طریقہ بہت ہی پسند آیا تو بعد میں بیس تراویح اور تین وتر باجماعت شروع کرادئیے ،جب اس روایت میں بھی اتنے احتمالات ہیں تو یہ حدیث بھی اس مدعیٰ کو ثابت نہیں کرسکتی کہ کل تراویح آٹھ رکعت ہے اور اس سے زیادہ خلاف سنت ہے،یہ بھی واضح رہے کہ جن فقہاء و شارحین حدیث نے آٹھ رکعات تراویح کو سنت لکھا ہے اس سے ان کی مراد کل تراویح نہیں بلکہ باجماعت رکعاتِ تراویح جو نبی پاک ۖ سے ثابت ہیں وہ آٹھ رکعات ہیں اس کا قرینہ یہ ہے کہ یہ سب فقہا وشراح رکعات تراویح کی تعداد بیس لکھتے ہیں۔ جب ان احادیث میں یہ احتمالات ہیں تو تراویح کی تعدادکا ان سے ثبوت نہ ہو سکا لہٰذا اب کوئی اور حدیث تلاش کرنی چاہیے جس میں تراویح کی تعداد مذکور ہو اور ان رکعات کا تراویح ہونا متعین ہو وہ ملاحظہ کیجیے ٔ۔ (٥) حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ رمضان میں بیس رکعات اور وتر پڑھا کرتے تھے (مصنف ابن ابی شیبہ)اور سنن بیہقی میں یہ بھی ہے کہ آپ یہ بیس رکعات اور وتر بغیر جماعت کے پڑھتے تھے چونکہ کسی فقیہ ومحدث کے نزدیک بیس رکعات تہجد نہیں ہوتی تہجدکی رکعات تین وتر سمیت ٥،٧،٩،١١،١٣ہیں اس سے زیادہ نہیں لہٰذا ان بیس رکعات کا تراویح ہونا متعین ہے اور محدثین کا اصول یہ ہے کہ خواہ کوئی حدیث سنداً ضعیف ہو مگر جب اس کو تلقی بالقبول کا درجہ حاصل ہوجائے یعنی جب اس حدیث کو علم وعمل کے اعتبار سے صحابہ کرام ،تابعین عظام اور مجتہدین وفقہاء اُمّت کے ہاں شرفِ قبولیت حاصل ہو جائے تو اس عملی تواتر وتعامل اور اجماعِ اُمّت کی وجہ سے وہ حدیث متواتر شمار ہوتی ہے اس کے ثبوت پر عملی تواتر ،اجماعِ اُمّت اور تلقی بالقبول اتنی قوی ومضبوط دلیل ہوتی ہے کہ اس کے بعد اس کے ثبوت کے لیے سند کی ضرورت ہی نہیں رہتی جیسا کہ چودہویں کا چاند اور دوپہر کا سورج اپنے ثبوت میں گواہی کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ چاند وسورج کی روشنی جو پورے جہان کو روشن کرتی ہے اور ہر سو پھیلی ہوئی ہوتی ہے وہی چاند وسورج کے ثبوت کے