ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2003 |
اكستان |
|
(٤) وہ احادیث جن میں نبی پاک ۖ کے آٹھ رکعت پڑھانے کا ذکر ہے ۔ حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ۖنے ہمیں ایک رات آٹھ رکعات اور وتر پڑھائے نیز حضرت جابر فرماتے ہیںکہ ابی بن کعب نے رمضان شریف کی ایک رات اپنے گھر میں عورتوں کوآٹھ رکعات پڑھانے کا نبی پاک ۖ کے سامنے ذکر کیا تو آپ نے کچھ نہ کہا ۔ان دونوں حدیثوں کی سند ایک ہے۔ اس میںعیسٰی بن جاریہ ،یعقوب قمی، اور محمد بن حمید رازی تین راوی ضعیف ہیں اورچوتھا راوی جعفربن محمد مجہول الحال ہے لہٰذا یہ دونوں حدیثیں سنداً ضعیف ہیں ۔علاوہ ازیں چونکہ ان حدیثوں میں تراویح کی صراحت نہیں صرف آٹھ رکعات کالفظ ہے اس لیے اس میں تین احتمال ہیں : (١)ممکن ہے یہ آٹھ رکعات تراویح ہوں اور کل تراویح اتنی ہی ہوں (٢)یہ احتمال ہے کہ اس میں صرف ان آٹھ رکعات تراویح کا ذکر ہے جو نبی پاک ۖ نے باجماعت پڑھائیں جبکہ باقی بارہ رکعات آپ نے اور صحابہ کرام نے انفراداًپڑھیں توکل تراویح بیس رکعات ہوجائیںگی اس کی تائید حضرت انس کی روایت سے ہوتی ہے جومسلم میں ہے۔ حضرت انس نے بھی ایک رات تراویح پڑھانے کا ذکر کیا ہے اس میں ہے کہ فصلی صلوة لا یصلیھا عندنا کہ آپ نے باجماعت تراویح پڑھا کر گھر میں جاکر وہ نماز پڑھی جو ہمارے پاس نہ پڑھی تھی چونکہ غیر مقلدین حضرات تراویح سے جدا تہجد کے قائل نہیں ہیں توان کو لامحالہ ماننا پڑے گا کہ یہ گھر میں پڑھی گئی رکعات ،تراویح کی بقیہ رکعات ہیں ۔ نیز اس احتمال کی تائید ابن عباس کی حدیث سے بھی ہوتی ہے جوآگے آنے والی ہے کہ آپ ۖ بغیر جماعت کے بیس رکعات اور وتر پڑھتے تھے اس سے پتہ چلتا ہے کہ آٹھ رکعات باجماعت کل تراویح نہ تھی بلکہ وہ رکعات باجماعت تھیں اور بارہ بغیر جماعت کے پڑھی ہوں گی تو کل تراویح بیس رکعات ہوئیں۔(٣)یہ بھی احتمال ہے کہ یہ آٹھ رکعت نوافل تہجد ہوں اور آپ نے وتر تہجد کے ساتھ پڑھے۔ ان احتمالات کے بعد یہ دونوں حدیثیں اس دعوٰی پردلیل نہیں بن سکتیں کہ آپ کی کل تراویح آٹھ رکعت تھی ۔ایک اور حدیث میں ہے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ۖ رمضان اور غیر رمضان میں (یعنی بارہ ماہ)گیارہ رکعات سے زیادہ نہ پڑھتے تھے یہ حدیث اگرچہ سنداً صحیح ہے مگر متن اور مضمون کے لحاظ صحیح نہیں کیونکہ بخاری ومسلم میں خود حضرت عائشہ سے نبی پاک ۖ کی رات والی نماز ٧،٩،١١، ١٣رکعات مروی ہے، اسی اضطراب وتضاد کی وجہ سے مولانا عبدالحی لکھنوی اپنی کتاب تحفة الاخیار ص١٢٩ میں فرماتے ہیں یہ حدیث ضعیف ہے اور اگر صحت تسلیم کرلیں تو بھی یہ آٹھ تراویح سے زیادہ تراویح کی نفی پر دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ اس میں ان آٹھ رکعات کے تراویح ہونے کی صراحت نہیں بلکہ ''رمضان وغیر رمضان ''کے الفاظ دلیل ہیں کہ اس میں نماز تہجد کا ذکر ہے، نہ نماز تراویح کا کیونکہ بارہ ماہ تہجد پڑھی جاتی ہے نماز تراویح بارہ ماہ نہیں پڑھی جاتی ۔یہی وجہ ہے کہ اکثر محدثین حضرات اس حدیث کو تہجد کے باب میں لاتے ہیں ۔البتہ بعض محدثین نے قیامِ رمضان کے باب میں اس کو اس لیے ذکر کیاہے تاکہ لوگ رمضان میں تراویح پر اکتفا کرکے تہجد