ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2003 |
اكستان |
|
جناب سید سلمان گیلانی والدین !رب کی رحمت اپنی خِلقت پہ کر غور ، اِنساں ذرا اِس حقیقت سے کیا تو نہیں آشنا ننھے ننھے سے تھے تب تِرے دست و پا ماں کے سینے سے لگ کے تھا سویا ہوا کتنی کمزور و لاغر سی جاں تھی تری کام کرتی تھی تیرے جو ماں تھی تِری دُودھ دو سال اُس نے پلایا تجھے سردی گرمی سے اُس نے بچایا تجھے کب پتہ تھا تجھے ہنسنے رونے کا بھی کب تجھے ہوش تھا اپنے ہونے کا بھی دُودھ دینا تجھے بُھولتی وہ اگر روکے تُو ماں کو دیتا تھا اس کی خبر تُو جو رویا تو ماں ساتھ روئی تِرے پیار کے جو نشے میں تھی کھوئی تِرے اپنا سُکھ ، چین تجھ پر لُٹاتی رہی جاگ کر خود ، تجھے وہ سُلاتی رہی تیری جانب رہے تاکہ اُس کی نظر اک ہی کروٹ پہ وہ لیٹتی رات بھر اللہ اللہ کی لوری وہ گاتی ہوئی ہَولے ہَولے کمر تھپتھپاتی ہوئی ہاتھ تیری کمر پر دَھرے سو گئی تجھ سے پہلے ہی بیدار پھر ہو گئی تونے ہلکی سی اُوں آں ہی کی تھی ابھی چُپ کرانے تجھے وہ تڑپ کر اُٹھی گِر نہ جائے تو کروٹ بدلتے ہوئے تکیے رکھتی تھی دو دائیں بائیں تِرے تو جو سردی میں بستر بھگوتا کبھی ہو کے بے چین ٹھنڈک سے روتا کبھی گود میں لے کے پھر وہ سُلاتی تجھے گرم بستر پہ اپنے لِٹاتی تجھے تجھ کو بیماری بچپن میں جب بھی لگی تو وہ تجھ کو نہیں تھی اُسے تھی لگی ماں سے سیکھا تھا جو بولنے لگ گیا پھر تو چلنے لگا دوڑنے لگ گیا جب تک اسکول سے گھر تو آتا نہ تھا ماں کا بے چین دِل چین پاتا نہ تھا کھیل کر شام کو جب تو آتا نہ گھر گھر کے در پر ہی رہتی تھی اُس کی نظر باپ نے اپنا خونِ جگر بیچ کر خرچ تجھ پر کیا اپنا گھر بیچ کر رات دن کرکے محنت پڑھایا تجھے کاٹ کر پیٹ اپنا کھلایا تجھے