ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2003 |
اكستان |
|
جھوٹی قسم کا وبال :تو وہاں کعبة اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر قسمیں کھاتے تھے نہ ہم نے مارا نہ ہمارے آدمی نے مارا نہ ہم اُس کے قاتل کو جانتے ہیں یہ قسم انھوں نے جھوٹی کھائی اُن کا ایک اعتقاد یہ تھا کہ جو یہاں جھوٹی قسم کھائے یا کسی قسم کی (غلط ) بات کرے تو ادبار سے نہیں بچتا اور کوئی بددُعا دے تو بد دُعا لگتی ہے بدعا کرے تو دُعا قبول ہوتی ہے یہ اُن کا عقیدہ چلا آرہا ہے مکہ مکرمہ ہی کے رہنے والے تھے مگر اُن کو اپنے مقام سے یہ عقیدہ خود بھی تھا یہ نہیں کہ باہر سے آنے والوں کا ہو اُن کا نہ ہو ان کا بھی تھا، احترام وہ کرتے تھے مکہ مکرمہ کا چنانچہ جنھوں نے قسمیں کھائیں تھیں سال نہیں گزرنے پایا کہ سب کے سب مر گئے یہ زمانہ جاہلیت میں ایک واقعہ ایسا گزرا تھا تو اسلا م نے اس سلسلہ کو جو''دِےَتْ'' کے اندر چلتا ہے قائم رکھا ہے تو جناب رسول اللہ ۖ تو بہت بڑے خاندان کے تھے یعنی ابو طالب سردار تھے ۔ ابو طالب کے بعد سرداری کا نمبر نبی علیہ السلام کاتھا : اور ابو طالب کے بعد سرداری کا نمبر جناب رسول اللہ ۖ ہی کا ہے ویسے بھی ،اور جب اسلام آگیا وحی آگئی نبوت ہو گئی تو سب ہی سے بڑے ہو گئے پھر مقابلے میں دوسرا خاندان آگیا یہ بنو اُمیّہ والا خاندان ابو جہل ،ابو سفیان، ابوجہل کے بعد اپنے خاندان کے بھی کچھ لوگ تھے ابو لہب اُدھر تھا، بدر کے موقع پر وہ نہیں آسکا شاید بیمار تھا یا کیا چیز تھی بہرحال وہ نہیں آیا ۔ ابو لہب کی عبرتناک موت : جب ''بدر'' والوں کو اطلاع پہنچی ہے کہ اس طرح سے ہمارے اتنے آدمی مارے گئے ہیںتو بیمار ہوا اور مرگیا اور مرض بھی اُسے ایسا ہوا کہ عرب لوگ اس مرض سے بہت ڈرتے ہیں اور وہ کوئی ایسا ہے جیسے کہ چیچک کی کوئی خاص قسم ہو اس میں مبتلا ہوا اور مرگیا ،پڑا رہا اندر، بچوں نے بھی لاش نہیں اُٹھائی پھر کسی نے غیرت دلائی تو پھر اُنھوں نے اس کو کسی طرح سے وہاں سے اُٹھا کر او ر لے جا کر ڈال دیا اُوپر مٹی ڈال دی ۔ بہر حال رسول اللہ ۖ خاندانی طورپر سب سے بڑے تھے ۔ غلاموں کے ساتھ حسنِ سلوک : جناب رسول اللہ ۖ کے پاس ایک غلام آئے ان کو آزاد کرد یا اب یہ واقعہ ہے جبلہ ابن حار ثہ رضی اللہ عنہ حضرت زید رضی اللہ عنہ کے جو بھائی ہیں ۔ان کو پتا چلا کہ میرابھائی زید آزاد ہوگیا ہے اور یہاں مکہ مکرمہ میں حضرت محمد ۖ کے پاس