ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2003 |
اكستان |
|
(٢) بارش کے تسلسل کے وقت اذان کے بعد کی دُعاء میں ہاتھ اُٹھانا : دُعا ء کی تین صورتیں ہیں : (١) کسی خاص وقت یا کام سے متعلق دُعا ہو مثلاًوضو کے بعد ،مسجد میںآتے جاتے وقت ، بیت الخلاء میں آتے جاتے وقت ، سواری پرچڑھتے اُترتے وقت ، بازار میںداخل ہونے کے وقت اور آئینہ دیکھتے وقت وغیرہ۔ ان موقعوں پر ہاتھ اُٹھانا وارد نہیں ہے کیونکہ یہ دُعائیں چلتے پھرتے او ر اپنا کا م کاج کرتے ہوئے آدمی کہتا ہے ۔اسی طرح بیوی سے پہلے خلوت میں وارد ہے کہ اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر منقول دُعاء کہے ۔ ظاہر ہے کہ بال پکڑے ہوئے ہوں تو ہاتھ نہیں اُٹھا سکتے صبح شا م کی دُعائیں اور سوتے وقت کی دُعائوں کا بھی یہی معاملہ ہے کہ آدمی چلتے پھرتے یا لیٹے ہوئے بھی دُعائیں پڑھتا ہے۔ اسی طرح آدمی بہت مرتبہ چل پھر رہا ہوتاہے یا اپنے کام کاج میں مشغول ہوتا ہے اذان سنتا ہے۔ اس لیے دُعاء کے لیے بھی ہاتھ اُ ٹھانا منقول نہیں اورہاتھ اُٹھانے والی حدیثیں بھی اس سے متعلق نہیں۔ (٢) چلتے پھرتے اور اُٹھتے بیٹھتے آدمی اپنی حاجتیں اللہ تعالیٰ سے مانگتا رہتا ہے ۔اس کے ساتھ بھی ہاتھ اُٹھانا متعلق نہیں ۔ (٣) آدمی تسلی سے بیٹھا یا کھڑا ہو اور صرف دُعاء ہی کا عمل کرنے کا ارادہ ہو جیسے نماز سے یاذکر و تلاوت سے فراغت پر دُعاء کرے یااور کوئی موقع نکال کر خاص دُعاء میں مشغول ہوتو ہاتھ اُٹھانے کی حدیثوں کا تعلق صرف ان موقعوں کے ساتھ ہے۔ جب موذن اقامت شروع کرے مقتدیوںکو اسی وقت کھڑے ہونا چاہیے : حی علی الصلٰوة پر کھڑے ہونے کو نمازکے آداب میں سے شمار کیا گیا ہے او ر آداب ان چیزوں کو کہتے ہیں کہ اگر ان کو کرو تو ثواب ہے اور نہ کرو تو کچھ گناہ نہیں۔ پھر علامہ طحطاوی رحمة اللہ علیہ نے تصریح کی ہے کہ کھڑے ہونے کی یہ حدِ تاخیر سے بچنے کے لیے ہے یعنی کھڑنے ہونے میں حی علی الصلٰوة سے زیادہ تاخیر نہ کرے ۔جہاں تک ثواب اور استحباب کا تعلق ہے تو وہ اقامت شروع ہوتے وقت کھڑے ہونے میں بھی ہے۔ اقامت کے شروع میں کھڑے ہونے کی وجوہ یہ ہیں : (١) صحابہ رضی اللہ عنہم کا عمل اسی پر تھا کہ اقامت شروع ہوتے وقت کھڑے ہوتے تھے۔ (٢) پوری اُمّت کا تعامل بھی یہی چلا آرہا ہے۔ (٣) حی علی الصلٰوة پرکھڑے ہونے کو اہلِ بدعت نے اپنا شعار او ر علامت بنا لیا ہے اور باوجودیہ کہ یہ