ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2003 |
اكستان |
|
ساتھ ماں باپ کی تھی دُعا دم بہ دم پھر جوانی کے زینے پہ رکھا قدم تان کر سینہ چلتا تھا تو اس طرح پھاڑ ڈالے گا تو یہ زمیں جس طرح اپنی قوت پہ تجھ کو بڑا ناز تھا جیسے چِڑیاں تھیں سب اور تُو شہباز تھا مان اپنی جوانی پہ کرنے لگا اک پَری شکل لڑکی پہ مرنے لگا گوری رنگت تھی زُلفیں تھی کالی گھنی وہ پَری شکل پھر تیری دُلہن بنی اُس کی چاہت میں تُو گُم ہُوا اس قدر لِی نہ پھر اپنے ماں باپ کی کچھ خبر ہوٹلوں پر تُو کھانے کھلانے لگا روز شاپنگ پہ لے کے تو جانے لگا باپ نے جو بچا کر تھا رکھا ہوا تُو نے عیاشیوں میں دِیا سب گنوا آج جب وہ نحیف اور لاچار ہیں تجھ سے دو روٹیوں کے طلب گار ہیں جن کے حصے کی کھاتا رہا بوٹیاں تجھ کو مشکل ہیں آج اُن کی دو روٹیاں تِر ا ایمان ایسا بگڑنے لگا وقت بے وقت اُن سے تُو لڑنے لگا ایک دن ماں نے اِتنا کہا اے پسر یُوں بڑھاپے میں مت پھیر ہم سے نظر اب تِرے بِن کوئی بھی ہمارا نہیں جُز تِرے اب کوئی بھی سہارا نہیں کیسے تُو نے پلٹ کر یہ ماں سے کہا مجھ میں بالکل نہیں حوصلہ اب رہا میری نظروں سے اب جلد ہو جائو گم جائو باہر کہیں جا کے مر جائو تم تِری اس بات پر وہ پریشان ہوئے جل کے راکھ آج سب اُن کے ارماں ہوئے دن دکھایا یہ اکلوتی اولاد نے کام کچھ نہ کیا اُن کی فریاد نے پڑ کے پائوں میں بولے کہاں جائیں گے ہم جہاں جائیں گے ٹھوکریں کھائیں گے تجھ پہ رعب اپنی بیگم کا تھا اس قدر اُن کی فریاد تجھ پر گئی بے اثر روتے روتے وہ رخصت جو ہونے لگے گھر کے دیور و در ساتھ رونے لگے سُن کے فریاد اُن کی گیا عرش ہل رحم آیا نہ تجھ کو مگر سنگ دِل کی خدا سے اُنہوں نے جو رو رو دُعا اک خدا ترس نے آسرا دے دیا غم کے بادل جو اُمڈ ے تھے وہ چھٹ گئے زندگی کے تھے دو چار دن کٹ گئے جی لیا جس قدر اُن کی قسمت ہوئی باپ بھی چل دیا ماں بھی رخصت ہوئی