ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2003 |
اكستان |
|
ایک مرتبہ شیخ العرب والعجم قطبِ عالم حضرت حاجی امداد اللہ صاحب قدس سرہ نے مکہ معظمہ سے اپنے خلیفۂ خاص حجة اللہ فی الارض حضرت مولانا رشید احمدصاحب قدس سرہ کو تحریر فرمایا کہ : ''عرصہ سے آپ نے اپنے خیالات تحریر نہیں فرمائے''۔ اس کے جواب میں حضرت مولانا نے بہت سی اظہار ندامت و اعترافِ تقصیر کے بعد نہایت مختصر لفظوں میں تحریر فرمایا کہ : ''اپنے اندر چند باتیں پاتاہوں ،ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ مادح وذام یکساں ہیں ''۔(تذکرة الرشید ١٨٨٢ ) جس روز یہ جواب حضرت حاجی صاحب کی خدمت میں پہنچا تو حاضرینِ مجلس کا بیان ہے کہ فرطِ مسرت سے حضرت پروجد کی سی کیفیت طاری تھی اور بار بار فرماتے تھے کہ یہ باتیں کس کونصیب ہوتی ہیں ؟ جن لوگوں کو حضرت مولانا کی کفش برداری کا موقع ملا ہے و ہ خوب جانتے ہیں کہ مولانا کا اصلی اور بے تکلف حال یہی تھا جو تحریر فرمایا کسی کی مدح وذم سے ذرا بھی متغیر نہ ہوتے تھے اور امر حق کے اظہار میں کسی کی پروا نہ کرتے تھے اور یہی اظہارِ حق اورتصلب فی الدین ہے جو علمائے ربانیین کو صحابہ سے ورثہ میں ملا ہے جس کا نام تعصب و تنگ خیالی رکھا گیا۔ ٦ نَحْنُ قَوْم اَ عَزَّنَا اللّٰہُ بِالْاِسْلَامِ : مذکورہ عنوان میں جو جملہ ذکر کیا گیا ہے ا س کا ترجمہ یہ ہے ''ہم ایسے لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اسلام سے عزت دی ہے''۔ یہ جملہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا وہ مشہور جملہ ہے جو آپ نے ''بیت المقدس'' کے سفر میں اُس وقت ارشاد فرمایا تھا جبکہ آپ کے استقبال کے لیے آنے والے صحابۂ کرام نے آپ کو انتہائی معمولی لباس پہنے اور نہایت معمولی سواری پر سوار دیکھ کر ترکی گھوڑا اور عمدہ و قیمتی لباس پیش کیا تھا۔ آپ نے یہ جملہ ارشاد فرمایا : نَحْنُ قَوْم اَ عَزَّنَا اللّٰہُ بِالْاِسْلَامِ '' ہم ایسے لوگ ہیں جنہیں خدا نے اسلام سے عزت بخشی ہے'' او رلباسِ فاخرہ زیبِ تن فرمانے سے انکار کردیا اور اسی لباس میں بیت المقدس داخل ہوئے ۔فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ جس رنگ میں رنگے ہوئے تھے اور جس سادگی و فروتنی کو آپ نے اختیا ر کیا تھا عام صحابۂ کرام کا حال بھی وہی تھا جس کا ظہور موقع بموقع ہوتا رہتاتھا ۔تاریخ میں یہ بات محفوظ ہے کہ جنگ قادسیہ کے موقع پر جب رستم نے حضرت سعد بن ابی وقاص سے مطالبہ کیا کہ کچھ لوگ گفتگو کرنے ٦ اشاعتِ اسلام ص ٢٧٨