ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2003 |
اكستان |
|
حاصل مطالعہ ( حضرت مولانا نعیم الدین صاحب ،فاضل و مدرس جامعہ مدنیہ) حضرت خالد کی کرامت اور حیرہ کی فتح : حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی رحمہ اللہ (م ١٣٤٨ھ/ ١٩٢٩ء ) تاریخ کے مستند حوالوں سے نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں : ''ملکِ عراق میں داخل ہونے کے لیے حیرہ بطور ِدروازے کے تھا بادشاہانِ فارس کی طرف سے حیرہ پر بڑا حاکم رہتا تھا اور حیرہ کے انجام پر تمام گردونواح کے شہروں اور قصبات کا مدار تھا اکثر اطراف کے چودھری اسی انتظار میں تھے کہ حیرہ کے ساتھ کیا معاملہ ہوتا ہے ؟اہلِ حیرہ نے صلح کر لینی چاہی اور گفتگو ئے مصالحت کے واسطے ''ایاس بن قبیصہ'' اور'' عمرو بن عبدالمسیح''عیسائی حضرت خالد کی خدمت میں حاضر ہوئے عمرو بن عبدالمسیح کی عمرکئی سوسال کی تھی اور اس کا لقب ''اِبن ِبُقَیْلَہ'' تھا (عربی میں سبزی او ر ترکاری کو بقل کہتے ہیں ،بُقَیْلَہ اس کی تصغیر ہے (عمر و بن عبدالمسیح) ایک موقع پر سبز چادر اوڑھے ہوئے آیا تھا تو لوگ اس کو'' اِبنِ بُقَیْلَہ'' کہنے لگے ۔ عمر و بن عبدالمسیح جب حضرت خالد کی خدمت میں حاضر ہوا توآپ نے پوچھا تمہاری عمر کتنی ہے ؟ کہا کئی سو سال کی۔ آپ نے فرمایا تم نے سب سے زیادہ عجیب بات کیا دیکھی؟ کہا حیرہ او ر دمشق کے درمیان متصل آبادی تھی ایک گائوں دوسرے گائوں سے ملا ہوا تھا ایک تنہا عورت سفر کرتی تھی اور اس کو ایک روٹی کے سوا کسی قسم کے توشے اور زادِ راہ کی ضرورت نہ ہوتی تھی ۔حضرت خالد نے ہنس کر اس کے ساتھیوں سے فرمایا کہ تم ایک ایسے شخص کے ذریعے گفتگو کرنا چاہتے ہو جس کی عقل و حواس درست نہیں رہے وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ کہاں سے آیا ہے؟ اِبنِ بُقَیْلَہ نے سن کر حضرت خالد سے گفتگو کی او ر ان کے ہر سوال کا معقول جواب دیا جس پر آپ کو یقین ہو گیا کہ اس کے حواس