ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2003 |
اكستان |
|
گو گستاخی معاف جناب کی سیاسی رائیں اب بھی میرے لیے ایک معمہ ہیں۔بہر حال اب درخواست امور ِذیل میں رہنمائی کی ہے ۔ (١) موجودہ بزرگوں میں سے کس کا انتخاب بیعت یا صحبت کے لیے کروں ۔ (٢) اپنی اصلاح قلب کے لیے خود جناب والا سے بھی مراسلت او ر تھانہ بھون میں حاضری چاہتا ہوں۔(ص٥وص ٦مع حاشیہ مولانا دریا بادی) یہ خط انہوں نے ٢٣جمادی الاولیٰ ١٣٤٦ھ ١٨نومبر ١٩٢٧ء کو لکھا تھا جس کا جواب٢٥نومبر کو موصول ہوا اس کے بعد ایک خط اور لکھا اور اس کے جواب کے بعد مکاتبت میں تعطل رہا۔ وہ اس کتاب میں ص٧ پر ١٩٢٧ء کا اپنا حال لکھتے ہیں ۔ حضرت مدنی جانشینِ شیخ الہند : مولانا کی ہستی اس وقت ایک راز ،ایک معمہ تھی ،جمعیة علماء کا زور تھا گو گھٹا ہو ا ۔محمد علی ،شوکت علی کا دور تھا گوشباب سے اُترا ہوا ،مسلمان خلافت کمیٹی کے ساتھ تھے اور خلافت کمیٹی کانگرس اور گاندھی جی کا ساتھ دے رہی تھی ۔ شیخ الہند محمود حسن دیوبندی اور ان کے بعد مولاناعبد الباری فرنگی محلی دونوں اپنے اپنے وقت میں مسلمانوں کی آنکھوں کے تارے بن کر رہے اور اب جانشینِ شیخ الہند کی حیثیت مولانا حسین احمد صاحب کو حاصل ہو رہی تھی۔ ص١٠پر ایک جگہ لکھتے ہیں : نام ذہن میں گھوم پھر کر وہی دیوبند کے دونوں بزرگوں کے آرہے تھے ۔مئی میں دلی جانا ہوا ۔محمد علی ہر چیز کے رازدار اور بہترین ومخلص ترین مشیر تھے ۔ذکر اُن سے آیا تو انہوں نے بلا تامل ووٹ مولانا حسین احمد صاحب کے حق میں دے دیا۔ مولانا انور شاہ کی بزرگی اور علم وفضل کے وہ بھی قائل تھے لیکن رائے وہی رکھتے تھے جو بعض اکابر حنفیہ نے ابن تیمیہ سے متعلق ظاہر کی ہے کہ ان کا علم وفضل ان کی فہم ٣ سے بڑھا ہوا ہے بہرحال اس ترجیحی ووٹ (casting) نے تذبذب کی صورت ختم کردی دل پہلے سے بھی اسی طرف جھک رہا تھا ۔ شروع جون میںبڑے تیز قسم کا بخار آیا ۔اس زمانہ میں قوالی سُنا کرتا تھا ۔شدت کے وقت قوال سے مثنوی کے ٣ حضرت مولانا انور شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ کے بارے میں مولانا محمد علی کی یہ رائے سرسری ہو گی ان کے محققانہ ملفوظات و کتب شائع نہ ہوئی گی اور قریب اور ساتھ رہنے کا اتفاق نہ ہوا ہو گا ورنہ ایسی کمزو ر رائے نہ ہوتی۔حامد میاں غفرلہ