ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2003 |
اكستان |
|
حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی مدظلہم : مولانا کا ایک بڑا کارنامہ جس کی اہمیت کا احساس بہت کم لوگوں کو ہے یہ ہے کہ ١٩٤٧ء کے ہنگامہ میں اور اس کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کی بقاء وقیام کا ایک بڑا ظاہری سبب مولانا ہی کی ہستی تھی یہ وہ وقت تھا جبکہ بڑے بڑے کوہِ استقامت جنبش میں آگئے سب یہی سمجھتے تھے کہ اب ہندوستان میں مسلمانوں کا کوئی مستقبل نہیں۔مسلمانوں کی تاریخ میں دو چارہی دور ایسے گزرے ہیں جب مسلمانوںاور اسلام کی بقاء کا سوال آ گیا ہے ۔٤٧ ء کا ہنگامہ ہندوستان کے مسلمانوں کے حق میں اسی نوعیت کا تھا اصل مسئلہ سہارنپور کے مسلمانو ں کا تھااور سارا دارومدار ان پر تھا یہ اپنی جگہ چھوڑتے تو یو پی کے مسلمانوں کے قدم لغزش میں آجاتے سہارنپور کے مسلمانوں کا انحصار سارا کا سارا دو ہستیوں حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری او رحضرت مولانا مدنی پر تھا اس وقت مسلمانوں کی قسمت کا فیصلہ جمنا کے کنارے ہونا تھا لیکن یہ دو صاحب ِعزم مجاہد بندے وہاں جمے رہے ایک رائے پورکی نہر کے کنارے بیٹھ گیا اور ایک دیوبند میں ۔آپ کو معلوم ہو گا یہ رائے پور اور دیوبند مشرقی پنجاب کے ان اضلاع سے متصل ہیں جہاں کشت وخون کا ہنگامہ گرم تھا لیکن یہ اللہ کے بندے پورے عزم و استقلال کے ساتھ جمے رہے اور انھوں نے مسلمانوں کو یقین دلایا کہ اسلام کو یہاں رہنا ہے اور رہے گا انہوں نے کہا کہ ''مسلمانوں کا یہاں سے نکلنا صحیح نہیں ہے اگر تم مشورہ چاہتے ہوتو ہم مشورہ دیتے ہیں اگر فتوٰ ی کی ضرورت ہے تو ہم فتوٰی دینے کو تیار ہیں ۔'' اس وقت جو ہندوستان میں اسلام او ر مسلمان قائم ہیں یہ انہی بزرگوں کا احسان ہے۔ ہندوستان میں جو مسجدیں اس وقت قائم ہیں او ر اُن میں جو نمازیں پڑھی جا رہی ہیں او ر پڑھی جاتی رہیں گی۔یہ ان کا طفیل ہے ہندوستان میں جتنے مدرسے اور خانقاہیں قائم ہیں اور جو فیوض وبرکا ت ان سے صادر ہو رہے اور ہوتے رہیں گے انہیں کے رہینِ منت ہوں گے اور ان سب کا ثواب ان کے اعمال نامہ میں لکھا جاتا رہے گا اس سلسلے میں مولانا حسین احمد مدنی نے سارے ملک کا دورہ بھی کیا ایمان آفریں اور ولولہ انگیز تقریر یں کیں اور اپنے ذاتی اثرورسوخ اپنی تقریروں او ر خود اپنے طرز عمل سے مسلمانوں کو اس ملک میں رہنے ،اپنے ملک کو اپنا سمجھنے اور حالات کا مقابلہ کرنے پر آمادہ کیا ۔