ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2003 |
اكستان |
|
توکہتے تھے بڑے خشک مزاج ہیں ۔خشک مزاج ایسے ہی ہوتے ہیں ؟ یہ نرم بشاش چہرہ یہ ہنستا مسکراتا ہوا بشرہ کسی خشک مزاج کا ہو سکتا ہے ؟ یہ بھی کہتے تھے کہ ان کے اور اُن کے بے لطفی ہے ناچاقی ہے کانوں نے بیشک یہی سُنا تھا لیکن اس وقت تو آنکھیں یہ دیکھ رہی تھیں کہ دو دشمن نہیں دودوست گلے مل رہے ہیں تعظیم و تکریم مولانا حسین احمد صاحب کی طرف سے تو خیر ہوتی ہی عادت ِطبعی کی بناء پر بھی اور سن میں چھوٹے ہونے کی بناء پر بھی لیکن مشاہدہ یہ ہو رہا تھا کہ اِدھر سے بھی آداب و رواسمِ تکریم میں کوئی کمی نہ تھی ۔لاحول ولاقوة لوگ بھی کیسی کیسی بے پر کی اُڑایا کرتے ہیںاور لوگ بھی کون ؟ عوام کالانعام نہیں اچھے اچھے پڑھے لکھے خاصے ثقہ راوی خود ان ہی دونوں حضرات کے خدام ومریدین بعض راوی زبانِ قال سے او ر بعض راوی زبانِ حال سے الحمد للہ کہ دونوں روایتیں آج غلط نکلیں مولانا نے تعارف ہم دونوں کا کرایا ہم دونوں سے بھی شگفتہ اخلاق و التفات ۔(ص١٦و ص١٧) اشراق کے وقت جب حضرت تھانوی اپنے دوسرے معمولات کے لیے روانہ ہونے لگے تو حضرت مدنی نے سرگوشی میں یہ فرمایا کہ یہ دونوں حضرات بیعت ہونے آئے ہیں حضرت تھانوی نے جو جواب دیا وہ انہوں نے سُنا کہ میں اُس وقت بیعت کرتا ہوں کہ کم از کم چھ ماہ خط و کتابت رہ لے یاطویل قیام کے بعد، غرض مناسبت کے یقین ہونے پر بیعت کرتا ہوں بغیر اس کے حسن اعتقاد بالکل ناکافی ہے آپ میرا یہی پیغام ان حضرات کو پہنچا دیں۔ دوسری نشست چاشت کے وقت شروع ہوئی مولانا سے ارشاد فرمایا کہ آپ نے میرا پیام ان حضرات تک پہنچا دیا پھر کیا رائے قرار پائی جواب مولانا کیا دیتے میں خود ہی ہمت وجراء ت کرکے بولا : حضرت معلوم ہوتا ہے کہ کچھ غلط فہمی ہو گئی درخواست تو صرف اس قدر تھی اور یہی میں کئی مہینے ہوئے خط کے ذریعہ سے بھی پیش کر چکا تھا کہ حضرت ہمیں انتخاب مرشد میں اپنے ارشاد ومشورہ سے مستفید ہم لوگوں کی ناقص نظر میں جو چند بزرگ ہیں ان میں سے نمبر اول پر مولانا حسین احمد صاحب اب آگے جناب کا جیسا ارشاد ہو یہی میں نے اس عریضہ میں بھی عرض کیا تھا اور اسی لیے یہ سفر بھی تھا ۔ حضرت مدنی کے حق میں حضرت تھانوی کی شہادت : حضرت نے تبسم کے ساتھ مولانا کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ پھرآپ نے یہ کیافرمایا تھا؟ اور ہم لوگوں سے ارشاد ہوا کہ آپ کا انتخاب بالکل صحیح ہے؟ میں اس سے بالکل اتفاق کرتا ہوں آپ مولانا ہی کے ہاتھ پر بیعت کیجیے : ''لیکن مجھ میں تو اس کی بالکل اہلیت نہیں اور جناب کے ہوتے ہوئے کسی اور کی طر ف رخ کرنے کے کوئی معنی ہی نہیں ۔''