ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2003 |
اكستان |
|
محض آداب میں سے ہے اور استحباب کی آخری حد ہے اس کے نہ کرنے والے کو برا سمجھا جاتا ہے جو خود بھی بدعت ہے۔ لہٰذا اہلِ بدعت کی مشابہت سے بچنے کے لیے بھی ضروری ہوا کہ اقامت کے شروع میں مقتدی کھڑے ہوں ۔ اذان سے پہلے درُود و سلام : پہلے پہل بعض صحابہ کو خواب میںفرشتے نے اذان سکھائی ۔ پھر رسول اللہ ۖ نے بھی اذان سکھائی۔ اس میں اذان کے معروف کلمات سے پہلے درود شریف نہیں پڑھا گیا اسی طرح رسول اللہ ۖ اور خیرالقرون میں اذان کہی جاتی تھی لیکن درود و سلام نہ پڑھا جاتاتھا ۔نہ بالکل پہلے اور نہ ہی کچھ وقفہ پہلے ۔یہی عمل اُمّت کا تواتر سے چلا آیا ہے درود وسلام کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اس موقع پر پڑھنا سرے سے منقول نہیں لہٰذا اس کا اضافہ بدعت ہے اور واجب الترک ہے۔ تثویب : اذان اور اقامت کے درمیان موذن ایک مرتبہ بلند آواز سے انتہائی مختصر اور معروف لفظوں میں لوگوں کوجماعت کی یاد دہانی کرائے اس کو تثویب کہتے ہیں ۔فجر کی نما ز کے لیے جہاں اس کی ضرورت ہو یہ جائز ہے۔ دوسری نمازوں میں موجودہ حالات میںتثویب جائز نہیں کیونکہ اذان کے بعد جماعت کھڑی ہونے کا وقت متعین ہے جو اتنا مختصر ہوتا ہے کہ آدمی استنجا اور وضو کرکے سنتیں ادا کرسکے ۔پھر گھڑیوں کا عام رواج ہے او ر گھڑی کے مطابق جماعت کھڑی ہوتی ہے۔ ان وجوہات سے موجودہ دور میں فجر کے علاوہ دیگر نمازوں میں تثویب کی ضرورت نہیں اور بلا ضرورت کرنا بدعت ہے ۔اسی طرح فجر میں بھی تثویب باربار کرنا یا زیادہ الفاظ میںکرنا بھی بدعت ہے۔ اذان واقامت میں رسول اللہ ۖ کے نام گرامی پر انگوٹھے چومنا : علامہ جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں : الاحادیث التی رویت فی تقبیل الا نامل وجعلھا علی العینین عند سماع اسمہ ۖ عن الموذ ن فی کلمة الشہادة کلھا موضوعات (تیسیر المقال بحوالہ راہ سنت ص٢٤٣) وہ حدیثیں جن میں موذن سے کلمہ شہادت میں نبی ۖ کا نام سننے کے وقت انگلیاں چومنے اور آنکھوں پر رکھنے کا ذکر آیا ہے وہ سب کی سب موضوع اور جعلی ہیں ۔ اسی وجہ سے یہ عمل بدعت ہے۔٭