ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2003 |
اكستان |
|
آگئے مدینہ منورہ میں اطلاع ملی کہ طبیعت ناساز ہو گئی ہے او رایسی ناساز ہے کہ باہر تشریف نہیں لاسکتے نمازوں میں ظاہر بات ہے سب ہی آگئے کہتے ہیں میں پہنچا جناب رسول اللہ ۖ کی خدمت میں اب یہ غلام کے بیٹے ہیں تو اس وقت کیفیت یہ تھی کہ آپ گفتگو نہیں فرماسکتے تھے تو بات تو کچھ نہیں تھی صرف بولنا دُشوار ہے تو رسول اللہ ۖ اپنے دونوں دستِ مبارک میرے اُوپر رکھتے تھے اور ایسے اُٹھا تے تھے اب میں یہ سمجھا کہ جناب رسول اللہ ۖ میرے لیے دُعاء فرمارہے ہیں ٥ کیونکہ ہاتھ رکھنا اور پھر ایسے اُٹھانا یہ ایسا ہی طریقہ اور انداز تھا جیسے کوئی دُعا کرتا ہو ،تو نظروں سے اورشفقت سے یہی انداز ہوتا تھا ۔ کمرے میں داخل ہونے کے آداب : حضرت اُسامہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں بیٹھا تھا رسول اللہ ۖ کے پاس اذ جاء علی والعباس کہ حضرت علی اور حضرت عباس آگئے ۔ان دونوں نے اسامہ سے کہا کہ جائو او ر جناب رسول اللہ ۖ سے اجازت لے لو ہم آنا چاہتے ہیں ۔ بلا اجازت کے داخل ہونا کسی کمرے میں یہ تو ٹھیک نہیں ہے منع ہی کیا جا تا ہے حالانکہ رشتہ دار تھے حضرت عباس رضی اللہ عنہ چچا ہیں حضرت علی چچا زاد بھائی ہیں داماد ہیںمگر دونوں اجازت چاہ رہے ہیں کہتے ہیں میں نے جا کر کہا یہ آنا چاہتے ہیں رسول اللہ ۖ نے مجھ سے دریافت فرمایا ا تدری ماجاء بھما کیا تم جانتے ہو کہ کیوں آئے ہیں یہ، قلت لا میں نے عرض کیا نہیں قال لکنی ادری فرمایا میں جانتا ہوں کیوں آئے ہیں ۔آنے دو اجازت دے دو ۔اندر آئے اور آکر انھوں نے کہا ہم اس لیے آئے ہیں کہ یہ دریافت کریں کہ آپ کو سب سے زیادہ کون محبوب ہے اپنے اہلِ خانہ میں ای اہلک احب الیک قال فاطمة بنت محمد فرمایا فاطمہ مجھے بہت محبوب ہیں ۔انھوں نے عرض کیا ماجئناک نسئلک عن اہلک یہ جو بالکل آپ کی اولاد ہے اس کے بارے میں ہم پوچھنے نہیں آئے بلکہ او ر لوگوں میں سے ۔ تو رسول اللہ ۖنے فرمایا وہ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے جس پر اللہ نے بھی انعام کیا ہے میںنے بھی انعام کیا ہے( یعنی) اسامہ ابن زید یہی جو آپ کو بلا کرلائے ہیں یہ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں ان دونوں نے عرض کیا پھراس کے بعد کون تو فرمایا ثم علی ابن طالب پھر یہ علی، اب حضرت عباس فرمانے لگے جعلت عمک اخرھم اپنے چچا کو تو آپ نے ان سب کے پیچھے کردیا،سب کے بعد کر دیا ۔ (باقی صفحہ ٥٨ ) ٥ مشکٰوة ص ٥٧١