ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2003 |
اكستان |
|
(٥ ) وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا وَلَایَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا اور وہ اپنے کیے ہوئے کاموں کو حاضر پائیں گے اورآپ کا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا ۔ (٦) وَمَا رَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ اور آپ کا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ۔ (٧) وَمَا اَنَا َ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ اور میں بندوںپر ظلم کرنے والا نہیں ہوں۔ (٨) اِنَّ اللّٰہَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ بے شک اللہ ایک ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا۔ (٩) وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیَامَةِ فَلا تُظْلَمُ نَفْس شَیْئًا او ر ہم قیامت کے روز انصاف کرنے کے لیے ترازورکھیں گے سو کسی نفس پر کچھ بھی ظلم نہ ہوگا۔ (١٠) وَمَا ظَلَمْنَاھُمْ وَلٰکِنْ کَانُوْا اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ ہم نے اُن پر ظلم نہیں کیا لیکن وہ اپنے نفسوں پر خود ہی ظلم کرتے ہیں۔ (١١) لَھَا مَا کَسَبَتْ وَ عَلَیْھَا مَا اکْتَسَبَتْ اس کے لیے وہی نیکی سود مند ہے جو اس نے کی اور اس کے لیے نقصان دہ وہ گناہ ہے جو اس نے کمایا۔ (١٢) اِ نْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَ نْفُسِکُمْ وَاِنْ اَسَأْ تُمْ فَلَھَا اگر نیکی کروگے تو وہ اپنے لیے ہی کروگے اور اگر برائی کروگے تو وہ بھی اپنے لیے۔ (١٣) وَلَا تَزِ رُوَازِرَة وِّزْرَاُخْرٰی اور ایک نفس دوسرے نفس کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا۔ یہ آیات پڑھ کر ان سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا پس جو یہ کہتا ہے کہ ولدالزنا تین میں سے بدترین ہے اور اس نے قرآن کی مخالفت کی اور غیر کے گناہ کی وجہ سے عذاب لازم کیا سواس نے ظلم وستم کیا۔فضل بن عطیہ نے کہا ابوحنیفہ آپ پر اللہ کی رحمت سایہ فگن ہو آپ ہی فرما ئیے اس کا معنی کیا ہے ؟ امام اعظم ابو حنیفہ نے فرمایا یہ قانون نہیں بلکہ ایک خاص ولدالزنا لڑکے کی حالت بتا ئی گئی ہے جس کے ماں باپ نے بد کاری کی مگر چوری قتل وغیرہ نہیں کرتے تھے او ر ان کا حرامی بچہ زنا بھی کرتا تھا اور چوری قتل کفر وغیرہ دوسرے گناہ بھی کرتا تھا اس خاص ولدالزنا کے بارے میں فرمایا کہ یہ ولدالزنا تین میں سے زیادہ برا ہے کیونکہ اس کے والدین نے صرف زنا کیااس نے زنا کے علاوہ کفر وشرک وغیرہ دوسرے گناہ بھی کیے اور کفر وشرک زنا سے بدتر ہے اس وجہ سے کہا گیا شراششہ۔ فضل بن عطیہ یہ سن کر جھوم اُٹھے اور فرمایا ھٰذا ھُوَ الْعِلْمُُ یہ ہے علم او ر اپنے بیٹے محمد سے مخاطب ہو کر کہا سن لیا ؟ امام ابو حنیفہ نے فرمایا یَا مُحَمَّدُ مَنْ طَلَبَ الْحدِیْثَ وَلَمْ تَطْلُبْ تَفْسِیْرَہَ وَ مَعْنَاہُ ضَاعَ سَعْیُہ وَ صَارَ ذَالِکَ وَبَالاً عَلَیْہِ فَکَانَ مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ بَعْدَ ذَالِکَ یُکْثِرُالْاِخْتِلاَفَ اِ لٰی اَ بِیْ حَنِیْفَةَ (مناقب موفق ص١٦٠ج٢ ) اے جس نے حدیث طلب کی اور اس کی تفسیر و