ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2003 |
اكستان |
ہاتھوں میں نہیں سوحضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے بحالت حیض نبی پاک ۖ کے سر مبارک میں مانگ نکالی۔ ابو ثور نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ جب حیض والی عورت زندہ آدمی کے سر میں مانگ نکال سکتی ہے تو مردہ عورت کو بطریقِ اولیٰ غسل دے سکتی ہے۔ یہ سنتے ہی محدثین حضرات نے اپنی اپنی اسناد کے ساتھ اس حدیث کو رواں دواں پڑھا شروع کردیا اس عورت نے یہ منظر دیکھ کر کہا این کنتم الی الان اب تک تم کہاں تھے یعنی جب میں نے مسئلہ پوچھا تھا اس وقت تم کیوں چپ رہے؟ اس وقت تو جواب نہ دے سکے اب اسناد سُنا رہے ہو ۔(فتاوٰی حدیثیہ لابن حجر ہتیمی شافعی ص٣٧٤) (٢) ابن عبد البرمالکی فرماتے ہیں کہ ا مام ابوحنیفہ کے استاذ حدیث ، استاذالمحدثین حضرت سلیمان الاعمش نے حج کا ارادہ کیا جب وہ حیرہ تک پہنچے تو علی بن مشہد سے کہا ابو حنیفہ کے پا س جائو ان سے احکام حج لکھوا کر لے آئو۔(فتاوٰی حدیثیہ لابن حجر ہتیمی شافعی ص٣٧٤) (٣) محمد بن شجاع کہتے ہیںفضل بن عطیہ حضرت امام ابو حنیفہ کے پا س تشریف فرما تھے امام اعظم ابو حنیفہ نے پوچھا آپ کا بیٹا محمد بن فضل کیا کرتا ہے؟انہوںنے کہاحضرت وہ محدثین کے گرد گھومتا رہتا ہے او ران سے حدیثیں لکھتا ہے آپ نے فرمایا ذرا اپنے بیٹے کو میرے پاس لے آئو تاکہ میں دیکھوں وہ کیا کر رہا ہے؟ فضل بن عطیہ اپنے بیٹے کو لے آئے امام ابو حنیفہ نے اس پہ بہت شفقت کی اپنے پاس بٹھایا اور پوچھا اے محمد !آپ کن لوگوں سے علم حاصل کر رہے ہیں ؟ اور کن سے لکھ رہے ہیں ؟ انہوں نے بتایا فلاں فلاں سے اس کے پاس ایک کتاب بھی تھی آپ نے وہ کتاب لی اور دیکھا تو شروع میں یہ حدیث لکھی ہوئی تھی نبی پاک ۖ نے ارشاد فرمایا اِنَّ وَ لَدَ الزِّنَا شَرُّالثَّلٰثَةِزنا سے پیداشدہ لڑکا تین میں سے (یعنی زانی مزنیہ ۔لڑکا میں سے )زیادہ برا ہے ۔امام ابو حنیفہ نے پوچھا اے محمد ! اس کا معنی کیا ہے ؟ اس نے کہا اس کا معنی وہی ہے جو صاف لفظوں میں نظر آرہا ہے کہ حرامی بچہ اپنے ماں باپ یعنی زانی ومزنیہ سے زیادہ برا ہے آپ نے فرمایا اے محمد آپ نے نبی پاک ۖ کی طرف ایک ناجائز بات کی نسبت کی ہے کیونکہ گناہ زانی اور مزنیہ عورت کا ہے مگر اس کا وبال ولدالزنا پر ڈال دیا گیا ہے ۔یہ کتاب وسنت کے خلاف ہے اور ظلم ہے آپ نے اس پر سیلِ رواں کی طرح فوراًتیرہ آیات پڑھ دیں : (١) کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَھِیْنَة ہر آدمی اپنے کیے ہوئے کاموں میں پھنسا ہوا ہے۔ (٢) لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَسَا ئُ وْا بِمَاعَمِلُوْا تاکہ وہ بدلہ دے ان لوگوں نے جنہوں نے برے کام کیے ۔ (٣) وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّامَا سَعٰی اور نہیں ہے انسان کے لیے مگر جو اس نے سعی کی۔ (٤) وَلَا تُجْزَوْنَ اِلَّامَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ اور تمہیں صرف انہی کاموں کی جزا دی جائے گی جو تم کرتے تھے۔