ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2003 |
اكستان |
|
رض ہے جس نے پانی کو صرف جمع کیا جذب کرکے اُگایا کچھ نہیں تاہم لوگوں نے اس جمع شدہ پانی سے نفع اُٹھایا ۔تیسرا زمین کا وہ ٹکڑا ہے جس نے نہ پانی کو جمع کیا اور نہ جذب کرکے کچھ اُگایا ۔اول قسم کے بارے میں نبی پاک ۖ نے ارشاد فرمایا فذالک مثل من فقہ فی دین اللّٰہ ونفعہ بما بعثنی اللّٰہ بہ فعلم و علم (بخاری ج١ص١٨)یہ اس آدمی کی مثال ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے دینی فقہ و فقاہت سے نوازا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے اس علم کو نافع بنا دیا جس علم کے ساتھ مجھے مبعوث کیا ہے سو اُس نے وہ علم سیکھا اور سکھایا ۔اور پانی کو جمع کرنے والا قطعہ ارض محدثین کی مثال ہے جنہوں نے بقاعدہ اسناد کے ساتھ حدیث ِرسول اللہ کو حفظ کیا اور حفظ کرکے اس کو محفوظ کر دیا ۔ تیسری مثال اس شخص کی ہے جس نے علم نبوت کی طرف ذرا برابر بھی توجہ نہ کی ۔جب فقیہ نے بارش کے پانی کو جذب کرنے والے قطعہ ارض کی طرح علم نبوت کو اپنے اندر جذب کیا تو وہ مزاج شناسِ نبوت اور مزاج شناسِ شریعت بن گیا جس سے اس میں ایسا ذوق پیدا ہو گیا کہ وہ اپنے فقہی ذوق کی وجہ سے منشاء الہٰی اور مراد نبوت کو سمجھنے کی صلاحیت واہلیت سے مالا مال ہوگیا ۔اسی لیے علامہ ابن تیمیہ مجموعہ قتادی کے ایک مقام میں فرماتے ہیں کہ مجتہد کا فقہی ذوق بھی معتبر و حجت ہوتا ہے چنانچہ مجتہد فہم حدیث کے ذوق اور اپنے عمیق علم کی قوت سے الفاظ نبوت کے ظاہر سے گزر کر اس کے باطن میں اتر کر حدیث کی تہہ میں مستور اصول و کلیات، احکام ومسائل اور علوم نبوت کے آبدار موتی تلاش کرکے غیر مجتہد علماء و عوام کی دینی ضرورتوںکو پورا کرتا ہے اولاً وہ حدیث کو سمجھتا ہے پھر سمجھاتا ہے ۔پہلے سیکھتا ہے پھر سکھاتاہے ۔وہ اپنے فقہی ذوق ،قوت استدلال او ر اجتہادی صلاحیت کی بدولت دست ِقدرت اور دستِ نبوت سے علمِ نبوت کے جواہر لیتا ہے پھر بڑی فیاضی کے ساتھ اہلِ ضرورت یعنی غیر مجتہد لوگوںکو دیتاہے یہ ہے فَعَلِمَ وَ عَلَّمَ اسی لیے امام ترمذی فرماتے ہیں الفقہاء ھم اعلم بمعانی الحدیث فقہاء حدیث کے معنی کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں ۔یہ حقائق ہیں او ر حقائق واقعات سے واضح ہوتے ہیں اس لیے فقہ کی حقیقت کو مزید واضح کرنے کے لیے چند واقعات آپ کے گوش گزار کرنا مناسب ہے : (١) ایک مجلس میں یحیی بن معین ، زھیر بن الحارث ،خلف بن صالح او ر ان کے علاوہ حفاظ حدیث یعنی محدثین کی ایک عظیم جماعت جمع تھی اور باہمی احادیث مبارکہ کا مذاکرہ کر رہے تھے کہ اتنے میں ایک عورت نے آکر ایک شرعی مسئلہ دریافت کیا ۔کیا حائضہ عورت بحالت حیض مردہ عورت کو غسل دے سکتی ہے ؟ مگر سب محدثین خاموش ہیں کوئی بھی اس کا جواب نہ دے سکا اسی اثناء میں اتفاقاً فقیہ ابو ثور تشریف لائے محدثین حضرات نے اس عورت کو کہا آپ ابو ثور سے مسئلہ پوچھ لیجیے اس عورت نے ابوثور کے سامنے مسئلہ پیش کیا انہوںنے برجستہ جواب دیا کہ ہاں حائضہ عورت اپنی اس حالت میں مردہ عورت کو غسل دے سکتی ہے کیونکہ حضرت عائشہ سے حدیث ہے نبی پاک ۖ نے فرمایا اے عائشہ میری مانگ نکا ل انہوںنے عرض کیا یا رسول اللہ ۖ ! میں حیض کی حالت میں ہوں ۔سرور کائنات ۖ نے فرمایا حیض تیرے