ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2003 |
اكستان |
|
''مگر مجھ پر تو آپ کو اعتماد ہے اور میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ میں اہلیت ہے آپ ہی ان حضرات کو لیجیے۔'' اس سوال وجواب کے بعد مزید مکالمت کی گنجائش ہی اب کہاں تھی ۔( ص٢٢) آگے چل کر تحریر ہے : باتیں خوب ہوئیں یاد کر لیجیے کہ ١٩٢٨ء تھا اور ایک مخاطب روز نامہ ''ہمدرد '' کا ڈائر یکٹر تھا صبح اور دوپہر کی ملا کر طویل صحبت میںسیاسی پہلوئوں پر گفتگو آجانا ناگزیر سا تھا گفتگو آئی حضرت نے اتنی معقولیت سے کی کہ ساری بد گمانیاں کافور ہوکررہیں کون کہتا ہے حضرت ''گورنمنٹی '' آدمی ہیں لاحول ولاقوة جس نے بھی ایسا کہا جان کر یا بے جانے بہرحال جھوٹ ہی کہا یہ توخالص مسلمان کی گفتگو تھی مسلمان بھی ایسا جو جوش ِدینی اور غیرتِ ملی میں کسی خلافتی سے ہرگز کم نہیں۔پاکستان کا تخیل خالص اسلامی حکومت کا خیال یہ سب آوازیں بہت بعد کی ہیں پہلے پہل اس قسم کی آواز یہیں کان میں پڑی بس صرف حضرت کو ہم لوگوں کے اس وقت کے طریقِ کار سے پورا اتفاق نہ تھا لیکن یہ اختلاف تو کچھ ایسا بڑا اختلاف نہیں ،نفس مقصد یعنی حکومت کا فرانہ سے گلو خلاصی ٥ ا ور دارالسلام کے قیام میں توحضرت ہم لوگوں سے کچھ پیچھے نہ تھے عجب نہیںجو کچھ آگے ہی ہوں۔(ص٢٣) مولانا سعید احمد صاحب اکبر آبادی تلمیذ حضرت انورشاہ صاحب رحمة اللہ علیہ فاضل دارالعلوم دیوبند ایم ۔اے سابق سربراہ شعبۂ اسلامیات علیگڑھ یونیورسٹی حضرت مدنی رحمہ اللہ کے بارے میں فرماتے ہیں : اسلام میں اعلی اور مکمل زندگی کا تصور یہ ہے کہ تزکیۂ نفس اور تصفیۂ باطن کے ساتھ فکر و نظر کی بلند ی اور جہد وعمل میں پختگی اور ہمہ گیری ہو اور یہ سب کچھ تعلق باللہ کے واسطے سے ہو ۔مولانا ا س دور میں اس معیار پر جس طرح پورے اُترتے تھے ہندوپاک تو کیا پورے عالمِ اسلام میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی ۔علم وفضل کا یہ عالم کہ اسرار و غوامض شریعت و طریقت ہر وقت ذہن میں مستحضر کسی سائل نے کوئی مسئلہ پوچھا نہیں کہ معلومات کا سمندر اُبلنے لگا چنانچہ حضرت مجدد الف ثانی کے مکتوبات کی طرح حضرت مولانا کے مکتوبات جو کئی جلدوں میں چھپ چکے ہیں او ر جو سب کے ٥ مولانا عبدالماجد صاحب مرحوم نے اپنے حاشیہ میں لکھا ہے ۔حضرت کی گفتگو میں یہ جزو بالکل صاف تھا ،حضرت کو حکومتِ وقت سے جو مخالفت تھی وہ اس کے ''کافرانہ '' ہونے کی بناء پر تھی نہ کہ اس کے بدیسی یا غیر ملکی ہونے کی بناء پر۔(حاشیہ ص٢٣ حکیم الامت مطبوعہ اعظم گڑھ)