ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2003 |
اكستان |
|
اس کے بعد سالانہ حاضری تو ہم دونوں کی دونوں جگہ ہوتی تھی مگر میری زیادہ سے زیادہ ہفتہ دو ہفتہ ماجد میاں اہل وعیال کے ساتھ کم وبیش ہر سال ماہ دو ماہ مستقل تھانہ بھون میں مقیم و مستفید رہتے، اپنی بدقسمتی اور حیدر آباد کی ملازمت کی پابندیوں کی وجہ سے تعطیلات ِگرما میں ہفتہ عشرہ یا زیادہ سے زیادہ دو ہفتہ کے لیے تھانہ بھون میں اور آتے جاتے ایک دو دن کے لیے دیوبند میںحاضری دیتا۔ایک بات رہ گئی کہ دیوبند واپسی پر حضرت مدنی نے ہم دونوں کو بیعت فرمالیاتھا۔(بزمِ اشرف کے چراغ ص٢٦٧و ٢٦٨) اس مضمون کے بعد میں نے مولانا عبدالماجد دریا بادی کی کتاب ''حکیم الامت '' دیکھی اس میں اس اجمال کی شرح ہے اسکے بہت سے فوائد ہیں خصوصاً فلسفہ والحاد کے شکار لوگوں کے لیے اس لیے نقل کرتاہوں ترتیب میری ہے۔انھوں نے اپنے حالات اپنے شیخ مربی حضرت تھانوی قدس سرہ کی خدمت میں یوں تحریر فرمائے ہیں : ایک انگریزی خواں ہوں ،مدتوں مغربی فلسفہ کے اثر ِضلالت بلکہ الحاد کی وادیوں میں ٹھوکر یں کھاتا رہا ۔خدا اور رسول کی شان میں گستاخیاں کرتا رہا برسوں کے بعد اسلام و ایمان کی طرف مراجعت نصیب ہوئی زیادہ تر مثنوی کی برکت سے گو اسے بھی بے سمجھے ہی پڑھا ۔اکبر الہ آبادی کی صحبتیں بھی اصلاحی اثر ڈالتی رہیں ۔(حاشیہ میں ہے کہ یہ مولانا کے بڑے معتقد ومداح تھے اور مولانا بھی ان کے بڑے معترف ) اب ''سچ'' ١ ہفتہ وار کے ذریعہ اپنی بساط کے لائق دین کی خدمت میں لگا لپٹا ہواہوں اور اپنے لکھے کو آپ مٹاتا رہتا ہوں ۔ ماضی کی بیہودگیوں کاتو ذکر وحساب ہی نہیں بڑی فکر حال کی ہے خدا معلوم اب بھی صراط مستقیم سے کتنی دور ہوں اب تک کسی بزرگ سے نہ بیعت نصیب ہوئی نہ طویل صحبت دل کی کشش صاحب مثنوی کے بعد شارح مثنوی حاجی صاحب مہاجر مکی ٢ کی جانب رہی۔زندہ ہستیوں میں نظر باربار مولانا حسین احمد صاحب کی جانب اُٹھتی ہے بعض احباب کا مشورہ مولانا انور شاہ صاحب سے متعلق ہے ،مشیر و مبصر آپ سے بڑھ کر اور کون ہو سکتا ہے جناب کی تصانیف سلوک حال میں دیکھیں اور دل پھڑک گیا ۔اب تک آپ کو صرف مولوی کی حیثیت سے جانتا تھا عارفانہ کمال کا حال تو اب کھلا ١ ''سچ'''' صدق ''کا قدیم نام ہے ،مولانا محمد علی مئی ١٩٢٨ء میں جب یورپ علاج کے لیے روانہ ہوئے تو اپنا مشہور زمانہ ''ہمدرد ''میرے سپرد کر گئے تھے ۔شاید ٢٧ ١٩ء میں مولانا عبدالماجد اس کے ڈائریکٹررہے ہوں ۔نیز مولانا موصوف صوبہ اودھ کی خلافت کمیٹی کے صدر تھے جیسے کہ انہوں نے اسی کتاب کے صفحہ نمبر ١ پر متن اور حاشیہ میں لکھا ہے ۔ ٢ حاشیہ میں ہے حضر ت شاہ امداد اللہ مہاجر مکی ،مولانا کے پیر و مرشد۔