ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2003 |
اكستان |
|
س شعرکی فرمائش کی ۔ چوں خلیل آید خیالِ یارِ منصو رتش بت معنی او بت شکن اورعالم تصور میں خیال ان ہی جا نشینِ شیخ الہند کا جمایا (خوب رقت طاری ہوئی اور طبیعت نسبتاً ہلکی ہو گئی۔ (ص١٠ و ص١١) اس کے بعد مولانا حاجی شاہ عبدالباری ندوی (جومولانا عبدالباری فرنگی محلی کے ہم نام تھے) کا تذکرہ ہے کہ وہ لڑکپن کے دوست تھے ان سے اس موضوع پر گھنٹوں گفتگو رہتی تھی اور اگرچہ حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ سے سب سے زیادہ عقیدت تھی اور بزرگی سب سے بڑھ کر ان ہی کی مسلم تھی مگر ان سے سیاسی اختلاف حائل تھا ۔ پھر ص١٢پر تحریر ہے : رفیقِ قدیم مولوی عبدالباری صاحب ندوی کے ساتھ مل کر دیوبند چلنے کی ٹھہر گئی اور جون ١٩٢٨ء کی کوئی آخری تاریخ تھی کہ صبح کے وقت ہم دونوں لکھنؤ سے لمبا سفر کرکے دیوبند اسٹیشن پہنچ گئے ۔یہاں کی حاضری کا یہ بالکل پہلا موقع تھا۔اسٹیشن پر دیکھا تو مولاناخود استقبال کے لیے موجود مولانا کی بزرگی کے قائل خوش عقیدہ حضرات جس بناء پر بھی ہوں اپنی نظرمیں تو ان کی بڑی کرامت ان کا ایثار انکسار تواضع بے نفسی ہی ہے علم وفضل ،فقر و درویشی کی بحثوں کو چھوڑئیے لیکن جہاں تک ہم نے ہر ادنیٰ کو اعلیٰ کر دیا خاکساری اپنی کا م آئی بہت کا تعلق ہے مولانا ١٩٢٨ء میں نہیں ١٩٤٣ء بلکہ نہیں اس وقت یعنی ١٩٤٨ء میں بھی اس دیکھنے والے کی نظر میں اپنی نظیر بس آپ ہی ہیں اور محمد علی جوہر نے یہ شعر کہا تو اپنے شیخ مولانا عبدالباری فرنگی محلی کے حق میں ہے لیکن صادق مولانا دیوبند پر بھی لفظ بلفظ آ رہا ہے ان کا کرم ہی ان کی کرامت ہے ورنہ یاں کرتا ہے کوئی پیر بھی خدمت مرید کی دوسروں کو شاید کام لینے میں وہ لطف نہ آتا ہو جو ان مولانا کو دوسروں کا کام کر دینے میں آتا ہے گھر پر آکر ملئے تو آپ کے لیے کھانا اپنے ہاتھ سے جا کر لائیں آپ کے لیے بستر بچھا دیں سفر میں ساتھ ہو جائیے تو دوڑ کر آپ کے لیے ٹکٹ لے آئیں قبل اس کے کہ آپ'' ٹکٹ گھر'' کے قریب بھی پہنچ سکیں ۔تانگہ کا کرایہ آپ کی طرف سے ادا کردیں اور آپ کا ہاتھ اپنی جیب میں پیسہ ٹٹولتا ہی رہ جائے ۔ریل پر آپ کا بستر کھول کر بچھا ئیں ۔آپ کے لوٹے میں پانی لے آئیں ۔آپ کا سامان اپنے ہاتھ سے اُٹھا نے لگیں ۔تین دن کے قیام دیوبند میں روایتیں مشاہدہ بن کر رہیں اور شنید ہ دیدہ میں تبدیل ہو کر تکلفات اور حاضرین اور مہمان داریاں کھانے پر کھانا اور چائے پر چائے۔