ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2002 |
اكستان |
|
ولاً تو میں نے ابو شیبہ کی تعدیل باعتبار حفظ و ضبط اور باعتبار عدالت عرض کردی وہ مختلف فیہ حسن الحدیث ہے ثانیاً یہ کہ جس حدیث کو تلقی بالقبول کا شرف حاصل ہو وہ صحیح ہوتی ہے چنانچہ علامہ جلال الدین سیوطی شرح نظم الدُرر میں فرماتے ہیں : المقبول ما تلقاء العلماء بالقبول وان لم یکن لہ اسنادصحیح او رامام سخاوی شرح الفیہ میں فرماتے ہیں اذا تلقت الامة الضعیف بالقبول یعمل بہ علی الصحیح حتی انہ ینزل منزلة المتواتر فی انہ ینسخ المقطوع بہ ولھذا قال الشافعی حدیث لا وصیة لوارث لا یثبتہ اہل الحدیث ولکن العامة تلقتہ بالقبول وعملوا بہ حتی جعلوہ ناسخا لآیة الوصیة للوارث۔ اور علامہ حافظ ابن حجر ''الا فصاح علی نکت ابن الصلاح ''میںفرماتے ہیں'' ومن جملة صفات القبولـ ان یتفق العلماء علی العمل بمدلول الحدیث فانہ یقبل حتی یجب العمل بہ وقد صرح بذالک جماعة من آئمة الاصول ''اس قاعدے کو غیر مقلدوں کے مشہور مناظر مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے بھی تسلیم کیا ہے (دیکھو اخبار اہل حدیث مؤرخہ١٩اپریل ١٩٠٧ ئ)۔ اب محدث صاحب کی خدمت میں گزارش ہے کہ عام علمائے اُمت کے قبول کر لینے سے جب ضیعف حدیث واجب العمل ہو جاتی ہے تو بیس رکعت والی حدیث جس پر خلفائے راشدین نے حکم دے کر عمل کروایا او ر تمام صحابہ کرام نے عہد فاروقی سے لے کر اور تمام تابعین اور تبع تابعین نے تمام آئمہ مجتہدین نے اس پر عمل کیا ہو اور تمام اُمت کا بارہ سو سال تک بلا اختلاف اس پر عمل ہو پھر تو ابو شیبہ کی یہ حدیث اتنی قوی اور مستحکم ہو جاتی ہے کہ اس کے بعد اس کو ضعیف کہہ کر پیچھا چھڑانا بالکل ناممکن ہوجاتا ہے۔ مقصد یہ کہ بیس رکعت کی حدیث اجماع اُمت کے موافق ہونے کی وجہ سے واجب العمل ہے اور آٹھ رکعت والی مخالف اجماع ہونے کی وجہ سے متروک اور منسوخ ہے۔ اہل سنت و جماعت تمام احادیث پر عمل کرتے ہیں : ان غالی غیرمقلدین کا عجیب طریقہ ہے کہ تمام ذخیرہ حدیث فی الباب سے ایک حدیث لے لیتے ہیں جو اپنے نفس کی خواہش کے مطابق ہو اور اُس کے خلاف خواہ کس قدر احادیث ہوں بس ایک وہی حدیث پیش کئے جاتے ہیں اور اپنے مخالفوں کو مخالف ِحدیث کہے جاتے ہیں ۔حضرت قاری عبدالرحمن ان غُلاة کی نسبت فرمایا کرتے تھے کہ یہ بیشک عامل بالحدیث ہیںلیکن الف لام الحدیث میں عوض میں مضاف کے ہے اور وہ مضاف الیہ نفس ہے یعنی عامل بالحدیث النفس تو واقعی یہ لوگ حدیث نفس کے عامل ہیں حدیثِ رسول ۖ پر عامل نہیں۔ یہ لوگ اپنے نفس کے مطابق احادیث تلاش کر لیا کرتے ہیں جیسے کسی کی حکایت مشہور ہے کہ اُس سے پوچھا گیا کہ تمہیں قرآن کا کونسا حکم سب سے زیادہ پسند ہے،