ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2002 |
اكستان |
|
تعالی نے کیا خاص بات بتائی ہے تو کسی نے کہا کہ جب ہماری مدد ہو اور ہمیں فتح ہو تو ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اُس وقت بھی استغفار کرتے رہے اور خدا کی تسبیح کرتے رہیں، تو مطلب تو ا نھوں نے بھی غلط تو نہیں بتلایا لیکن جس گہرائی تک وہ پو چھنا چاہتے تھے وہ بات ابھی نہ ہوئی تو کوئی نہ بتا سکا، انھوں نے بعد میں ان سے پوچھا کہ بتائو کہ اس کی مراد کیا ہے ؟ تو اب کوئی بھی بتائے گا تو وہ ترجمہ کردے گا یا اس سے متعلق چیزیں نکال کر بتا دے گا اور حضرت عمر پوچھنا چاہتے تھے کہ شانِ نزول کیا ہے یہ اُتری کس وجہ سے ہے ؟ خاص بات جو ہے وہ بتائو تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے کہا کہ اس میں جناب رسول اللہ ۖ کی وفات کی اطلاع ہے کہ جب یہ حال ہو جائے کہ لوگ اسلام میں داخل ہونے لگیں تو پھر تم خدا کی طرف متوجہ رہنافسبح بحمد ربک واستغفرہ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ بہت خوش ہوئے اور انھوں نے فرمایا مااعلم منہا الاما تعلم بس اتنا ہی میرا بھی علم ہے جتناتمہارا یعنی تم نے بھی وہی بات بتائی جس بات تک میں پہنچا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں اپنا مقرب بنا رکھا تھا ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالی نے بہت سی فضیلتوں سے نوازا اور یہ جناب رسو ل اللہ ۖ کی دُعائوں کا اثر تھا اور یہ اتنے بڑے عالم ہو گئے ۔ حضرت عبدالرحمن ابن عوف کی بے نفسی : ایک تھوڑا سا قصہ ہے اور اس میں ایک بہت بڑا سبق ہے کہ حضرت عبدالرحمن ابن عوف رضی اللہ عنہ جو عشرہ مبشرہ میں ہیں بہت بڑے آدمی ہیں اُمت کے دس چیدہ حضرات میں ہیں جنھیں جناب رسول اللہ ۖ نے جنت کی گارنٹی دی ہے اُن میں وہ ہیں تو اُن کی بے نفسی کایہ حال تھا کہ وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے قرآن پاک اور اُس کی تفسیر پڑھا کرتے تھے حالانکہ وہ بہت بڑے صحابی ہیں اور اُن کا مقام یہ ہے کہ جو وہ بات بتا دیتے تھے یا کہہ دیتے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ پھر اُس پرگواہ نہیں مانگتے تھے جو عشرہ مبشرہ میں ہیںبڑے بڑے حضرات ،ان کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا رویہ یہی رہا ۔ تثبت نہ کہ بے اعتبار ی : باقی حضرات جو صحابہ کرام تھے وہ اگر کوئی حدیث ایسی سُناتے تھے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نہ سُنی ہو تو پوچھتے تھے کہ کوئی اور بھی ہے جس نے سُنی ہے اُسے بھی بلائو اُس نے کیا سُنا یعنی ممکن ہے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو تواس کا نام ہے ''تثبت''کہ اور کسی کو بھی لائو ۔یہ بے اعتباری نہیں ہے بلکہ ایک قسم ہے مضبوطی کی کہ جوبات معلوم ہو و ہ پُوری طرح معلوم ہو مضبوط ذرائع سے معلوم ہو جس پر جما جا سکے ۔ موزوں پرمسح اور حضرت سعد کا مقام : ان کے بیٹے عبداللہ ابن عمر اُنھوںنے کہیں سفرمیںدیکھا حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو کہ موزوںپر مسح کررہے ہیں