ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2002 |
اكستان |
|
لسنة یعنی سنت بنوی سے ثابت نہیں ہوتا (نیل الاوطار ج٢ ص٢٩٨) (٣) غیر مقلدوں کے مشہور مصنف میر نور الحسن خاں صاحب اپنی کتاب عرف الجاوی ص٨٧ پر لکھتے ہیں ''وبالجملہ عددے معین درمرفوع نیامدہ تکثیر نفل وتطوع سودمند است پس منع از بست و زیادہ چیزے نیست''یعنی مرفوع حدیث سے کوئی معین عدد ثابت نہیں ہے زیادہ نفل پڑھنا فائدہ مند ہے پس بیس رکعات سے منع نہ کرنا چاہیے۔ (٤) نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں ولم یات تعین العدد فی الروایات الصحیحة المرفوعة ولکن یعلم من حدیث کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یجتھد فی رمضان مالا یجتھد فی غیرہ رواہ مسلم ان عدد ھاکان کثیراً (الانتقاد الرجیح ص ٦١ ) اور عدد کی تعین صحیح مرفوع روایتوں میں نہیں آئی لیکن صحیح مسلم کی ایک حدیث سے کہ آنحضرت ۖ رمضان میں جتنی محنت اور کوشش کرتے تھے اتنی غیر رمضان میں نہیں کرتے تھے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی تراویح کا عدد زیادہ تھا (یعنی گیارہ یا تیرہ نہ تھیں )یہی نواب صاحب ہدایة السائل ص ١٣٨ پر لکھتے ہیں کہ بیس رکعت تراویح پڑھنے والا بھی سنت پر عامل ہے ۔جامعہ محمدیہ اوکاڑہ کے بانی حافظ محمد لکھوی فرماتے ہیں : بعضے آٹھ رکعاتاں پڑھدے بعضے ویہ (٢٠) رکعاتاں جتنیاں بہت رکعاتاں پڑھن اُتنیاں بہت براتاں اس کے علاوہ امام سبکی ،سیوطی وغیرہ نے بھی فرمایا کہ رسول پاک ۖ سے کوئی عدد معین ثابت نہیںہے ۔ان عبارات سے معلوم ہوا کہ محدث صاحب کا یہ دعوٰی کہ آٹھ رکعت سنت نبوی سے ثابت ہے اُن کے اپنے مذہب سے بھی بے خبری کی دلیل ہے ۔ محدث صاحب کے دعوٰی کا پوسٹ مارٹم : محدث صاحب فرماتے ہیں کہ آٹھ رکعت تراویح کی حدیث جابر سے مروی ہے وہ صحیح ہے اور بیس رکعت تراویح کی حدیث حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے وہ ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی ابو شیبہ ہے وہ ضعیف ہے حدیث حضرت جابر : آنحضرت ۖ نے رمضان میں ہمارے ساتھ آٹھ رکعتیں اور وتر پڑھے (طبرانی ۔قیام الیل ۔ابن حبان ) یہ کونسی نماز تھی تہجد یا تراویح یا لیلة القدر کی نماز، اس کا اس حدیث میں کوئی ذکر نہیں ہے آئیے ہم اس حدیث کی سند کا حال بھی آپ کو بتاد یں۔ اس کی روایت حضرت جابر سے عیسٰی بن جاریہ نے کی ہے اور امام طبرانی فرماتے ہیں لا یروٰ ی عن جابر الا بھذا الاسناد (طبرانی) یعنی حضرت جابر سے صرف یہی ایک سند ہے ۔