ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2002 |
اكستان |
|
غزوۂ عسرت کا واقعہ مشہور ہے کہ آنحضرت ۖ نے امداد کی اپیل فرمائی تو حضرت عثمان نے تین سواُونٹ ، دس ہزار دینار ،چارہزار درہم پیش کیے ۔ فاروق اعظم کے یہاں جو کچھ تھا اُسکا آدھا لے آئے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تویہ کمال کیا کہ جو کچھ تھا سب ہی لا کر بارگاہِ رسالت میں پیش کر دیا ۔ یہ ہے قومی اور ملی احساس جو ہر مسلمان میں ہونا چاہیے جس کی بنا پر وہ خود آگے بڑھ کر اپنی دولت خرچ کرے ۔ جتنے زیادہ ولولہ اور شوق سے دولت خرچ کرے گا اتنا ہی زیادہ اجر و ثواب کامستحق ہو گا ۔اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے : مثل الذین ینفقون اموالھم فی سبیل اللّٰہ کمثل حبة انبتت سبع سنا بل فی کل سنبلة مائة حبہ واللّٰہ یضاعف لمن یشاء ۔(سورة البقرہ ۔آیت : ٢٦١ پارہ : ٣) ''وہ لوگ جو اپنا مال راہ ِ خدا میں خرچ کرتے ہیں ۔ اس خرچ کی مثال اس دانہ کی ہے جس میں سات خوشے نمود ار ہوئے ،ہر خوشے میں سودا نے اور اللہ جس کو چاہتا ہے بڑھاتا ہے۔'' بارہا ایسا ہوتا ہے کہ ملکی ضرورتوں کے لیے حکومتیں پبلک سے قرض لیا کرتیں ہیں ۔دینی اور ملی ضرورتوں کے لیے جو رقم صرف کی جاتی ہے ۔اللہ تعالی فرماتے ہیں وہ ہمارے اوپر قرض ہے ہم اس کا انعام بہت بڑھا چڑھا کر دیں گے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : من ذاالذی یقرض اللّٰہ قرضا حسنا فیضاعفہ لہ اضعا فا کثیرة۔واللّٰہ یقبض و یبصط والیہ ترجعون ۔ (سورة بقرة : آیت ٢٤٥ پ: ٢) ''کون ہے جو اللہ کو اچھا قرضہ قرض دے کہ اللہ تعالیٰ اسے بڑھا چڑھا کر کئی گنا کر دے اوراللہ ہی تنگی کرتااور فراخی دیتا ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹا ئے جائو گے۔'' یعنی جو کچھ ہے اسی کا ہے ،تم خود بھی اُسی کے ہو ۔چند روزہ زندگی کے بعد اُسی کی طرف لوٹ کر جائو گے پھر دل تنگی اور بخل کیسا ۔اللہ کی راہ میں دل کھول کر خرچ کرو۔ تعریف ،حکم اور شرطیں تعریف : زکٰوة مال کے اُس خاص حصے کو کہتے ہیں جس کو خدا کے حکم کے موافق فقیروں ، محتاجوں وغیرہ کو دے کر انہیں مالک بنا دیا جائے۔