ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2002 |
اكستان |
|
بالکل خلاف ہے کیونکہ جس اثر کو محدث صاحب نے ذکر کیا ہے اس کا مدار محمد بن یوسف پر ہے اُ س کی روایت میںسخت اضطراب ہے وہ کبھی ١١ کہتاہے کبھی١٣ کبھی ٢١ اور مضطرب روایت ضعیف ہوتی ہے تو لامحالہ یہ روایت ضعیف ہوئی تو استدلال کیا! ۔اب ایک طرف یہ مضطرب اور ضعیف روایت دوسری طرف ہم نے صحیح روایات بیان کر دیں ہیں کہ حضرت عمر نے بیس کا حکم دیا تھا نیز محدث صاحب یہ بھی بتائیں کہ کیا عقل اس کو تسلیم کرتی ہے کہ حضرت عمر گیارہ کا حکم دیں اور عہد فاروقی کے صحابہ و تابعین خلیفہ راشد کے حکم کی خلاف ورزی کریں اور بیس پڑھنی شروع کر دیں۔ محدث صاحب اگر حکم گیارہ کا تھا اور صحابہ و تابعین نے اس حکم کونہ مانا بیس پڑھنی شروع کردیں اور آٹھ کی سنت بجائے ٢٠ تراویح کی بدعت شروع کر دی تو بتائو کہ حضرت عمر نے اس بدعت کو کیوں نہ مٹایا اور حضرت عمر کے بعد حضرت علی نے اس بدعت کو کیوں نہ مٹایا۔ محدث صاحب کیوں لوگوں کو صحابہ تابعین او ر سلف صالحین سے بد ظن کرتے ہو۔ حضرت حکیم الامت مولانااشرف علی صاحب تھانوی رحمةاللہ علیہ فرماتے ہیںبیس رکعت کے سنت مؤکدہ ہونے پر اجماع منعقد ہو چکا ہے اور اجماع کی مخالفت ناجائز ہے اور یہ اجماع علامت ہے اُن احادیث (آٹھ رکعت والی اگر کوئی صحیح ہو) کے منسوخ ہونے کی (اشرف الجواب ج١ص ١٠٢)۔ حضرت حکیم الامت کے اس بیان سے معلوم ہوا کہ اگر بفرض محال حدیث جابر وغیرہ صحیح بھی ہوتو بھی صحابہ کرام کا بیس رکعت پر اجماع اس کے منسوخ ہونے کی علامت ہے ۔امام نووی مقدمہ شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں من اقسام النسخ مایعرف بالا جماع کقتل شارب الخمر فی المرة الرابعة فانہ منسوخ عرف نسخہ باالاجماع والاجماع لا ینسخ ولکن یدل علی وجود الناسخ او ر غیر مقلدوں کے جد امجد نواب صدیق حسن خاں اپنی کتاب ''افادة الشیوخ فی بیان الناسخ والمنسوخ'' پر لکھتے ہیں :''چہارم آنکہ باجماع صحابہ دریافت شود کہ ایں ناسخ وآں منسوخ ... ومثل اوست حدیث غلول صدقہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دراں امر باخذ صدقہ و شطر مال او فرمودہ لیکن صحابہ اتفاق کردندبر ترک استعمال ایں حدیث وایں دال است برنسخَ وے۔ومذہب جمہور نیز ہمیں است کہ اجماع صحابہ از ادلہ بیان ناسخ است ۔ ''نواب صاحب کی یہ عبارت اس بات پر صریح نص ہے کہ جو حدیث عہد صحابہ میں متروک العمل ہو چکی ہو وہ منسوخ ہے پس آٹھ رکعت کی روایات پر عمل کرنے والا اجماع صحابہ کا مخالف اورروایات منسوخہ پر عامل ہے جیسا کہ عیسائی اور یہودی مذہب منسوخ پرعامل ہیں پس حدیث عائشہ مدعٰی سے ساکت ہے اور حدیث جابر ضعیف بھی ہے اور منسوخ بھی ،رہی حدیث ابن عباس جس میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بیس رکعت تراویح پڑھنے کا ذکر ہے اور مولوی عبدالجبار صاحب نے اُسے ابو شیبہ کی وجہ سے ضعیف کہہ دیا ہے