ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2002 |
اكستان |
|
انھوںنے کہا یہ جناب کیا کر رہے ہیں بجائے پائوں دھونے کے مسح کر رہے ہیں۔ کہنے لگے رسول اللہ ۖ نے ایسے کیا تھا اور تم اپنے والد صاحب سے پوچھنا تو جب یہ مدینہ منورہ آئے تووالد صاحب سے پوچھا تو انھوں نے فرمایا کہ ہاں ٹھیک ہے تمھیںکس نے بتایا انھوں نے کہا کہ ایسے واقعہ ہوا تھا حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اذاحدثک سعد شیأ فلا تسئل عنہ غیرہ جب تمہیں حضرت سعد رضی اللہ عنہ کوئی حدیث سُنائیں جناب رسول اللہ ۖ کی تو اُ س کے بارے میں پھر کسی اور سے نہ پوچھا کریں اس کی ضرورت نہیں ہے تو حضرت عبدالرحمن ابن عوف کا اتنا بڑا مقام ہے۔ پھر حضرت عبدالرحمن ابن عوف کی وفات جو ہوئی ہے وہ حضر ت عثما ن رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوئی ہے ٣٠ یا ٣٢ ھ کے قریب۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف کی وصیت : اور اس وقت انھوں نے جو وصیت فرمائی تھی کہ اہل بدر کو میرے مال میں سے اتنا دیا جا ئے تقسیم کیا جائے تو اہل بدرکی فہرست بنائی گئی تو اُس میں اس وقت سو اہل بدر زندہ تھے مو جود تھے ،تو اُن کو جیسے ان کی وصیت تھی ان کے مال میں سے ویسے ہی دیا گیا تو گویا عمر رسیدہ تھے مگر اپنے بیٹوں کے برابر جو تھے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اُن سے پڑھا تو معلوم ہوا کہ علم میں یہ شرم غلط ہے کہ یہ مجھ سے چھوٹا ہے بلکہ یہ دیکھا جائے کہ وہ عالم اگر زیادہ ہے تو بڑی عمر کا آدمی بھی اُس کا شاگرد ہو سکتا ہے، صحابہ کرام کا طریقہ یہ رہا تمام چیزوں میں۔ اللہ تعالی ہمیں آخر ت میں ان کا ساتھ عطا فرمائے ۔آمین۔