ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2002 |
اكستان |
|
ستاذالاستاذ اور نہایت ثقہ اور حافظ الحدیث تھے، فرماتے ہیںما قضٰی علی الناس فی زمانہ اعدل فی قضاء منہ (تہذیب ج١ ص١٤٥ )یعنی ہمارے زمانہ میںاُن سے زیادہ عدل و انصاف والا قاضی کوئی نہیں ہوا، اور ابو شیبہ کے متعلق حافظ ابن حجر فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے ابراہیم بن عثمان ابو شیبہ الحافظ تو جب ابو شیبہ عادل بھی ہے حافظ بھی ہے تو یقینًا ثقہ ہوئے، اس لیے علامہ ابن عدی فرماتے ہیں لہ احادیث صالحة و ھو خیر من ابراہیم بن ابی حیة (تہذیب ج١ ص١٤٥)یعنی ابو شیبہ کی حدیثیں صالح ہیں اور وہ ابراہیم ابن ابی حیہ سے بہتر ہے اور ابراہیم بن ابی حیہ کو ا بن معین نے شیخ ثقة کبیر فرمایاہے( اللسان ج١ص ٥٣ )۔خلاصہ یہ کہ جب ابو شیبہ عادل حافظ ہے اُس کی حدیثیں صالح ہیں بلکہ وہ ابراہیم بن ابی حیہ سے بہتر ہے تو اب حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے فرمان کی صحت میں کیا شک رہ گیا۔ غرض محدث اوکاڑی کو تعصب نے ایسا محروم ا لبصیرت کیا کہ جس کی سند میں چارراوی مجروح تھے اُن کی جرح کو بھول گئے اور ابو شیبہ پر صرف جرح نظر آئی اور اُس کی تعدیل سے آنکھیں بند ہو گئیں اور پھر محدث صاحب اصول کا یہ قاعدہ بھی بھول گئے کہ جس حدیث پر امت نے عمل کرلیا ہو اور اس حدیث کو تلقی بالقبول حاصل ہو اُس کی سند میں اگر کلام کی گنجائش ہو بھی تب بھی وہ صحیح ہوتی ہے چنانچہ اس کی تفصیل خاتمے کے قریب آتی ہے۔ غرض یہاں تک تو محدث صاحب کے اس دعوٰ ی پر مختصر عرض کیا ہے کہ رسول پاک ۖ سے آٹھ رکعت بسند صحیح ثابت ہیں اور بیس ثابت نہیں اور محدث صاحب کی امانت و دیانت بھی آشکارا ہو گئی۔ اس کے بعد محدث صاحب نے کہا ہے کہ خلفائے ر اشدین کی سنت بھی بیس نہیں بلکہ آٹھ ہے ۔حالانکہ نواب صاحب لکھتے ہیں کہ بیس رکعت سنتِ عمر بن خطاب ہے اور بیس پڑھنے والا بھی سنت پر عامل ہے ۔(ہدایہ السائل ص١٣٨) عہد فاروقی : رسول پاک ۖ نے صرف تین دن باجماعت تراویح پڑھائیں ،اُس کے بعد لوگ گھر میں یا مسجد میں بلا جماعت تراویح پڑھتے رہے ۔حضرت فاروق اعظم نے لوگوں کو پھر جماعت تراویح پر جمع فرمایا جن لوگوں کو فاروق اعظم نے جمع فرمایا وہ کتنی رکعتیں ادا کرتے تھے اُس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیے : پہلی روایت : عن السائب بن یزید قال کنا نقوم فی زمن عمر بن الخطاب بعشر ین رکعة والوتر (رواہ البیہقی فی المعرفة ) ترجمہ : حضرت سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عمر بن الخطاب کے زمانہ میں بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے اس روایت کو امام نووی نے صحیح کہاہے (شرح المہذب ج٤ ص ٣٢ ) امام عراقی