ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2002 |
اكستان |
|
عیسٰی بن جاریہ کے متعلق امام الجرح والتعدیل ابن معین فرماتے ہیں عند ہ مناکیر ، امام ابودا ود اورنسائی فرماتے ہیں کہ وہ منکرالحدیث ہے اور امام نسائی نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اُس کی روایات متروک ہیں ۔ ساجی اور عقیلی نے بھی اُسے ضعیف کہا ہے ۔ ابن عدی نے کہا ہے کہ اُس کی حدیثیں محفوظ نہیں ہیں ۔قال ابن حجر فیہ لین ( میزان الا عتدال، تہذیب ) ۔عیسٰی بن جاریہ سے آگے روایت کرنے والا بھی ایک ہی راوی ہے ،یعقوب القمی۔امام ابن معین فرماتے ہیں لااعلم احداً روی عنہ غیر یعقوب القمی (کتاب الجر ح والتعدیل لابی حاتم الرازی ج٣ ص٢٧٣)۔اس راوی کے متعلق امام دار قطنی فرماتے ہیں لیس بالقوی یعنی وہ قوی نہیں ہے۔ یعقوب قمی سے دو راوی روایت کرتے ہیںمحمد بن حمید رازی ا ور جعفر بن حمید انصاری، محمد بن حمید رازی کو امام بخاری ،امام سخاوی ،امام نسائی ،یعقوب بن شیبہ ،ابوزعہ ،جوزجانی ،اسحاق کوسج،فضلک رازی ،ابو علی نیاپوری ،صالح بن محمد اسدی ،ابن خراش ،ابو نعیم وغیرہ محدثین نے ضعیف کہا ہے (دیکھو تہذیب التہذیب ج٩ص١٢٩ اور میزان الاعتدال ج٩ص٥٠)اور چوتھا راوی جعفر بن حمید مجہول الحال ہے۔ ناظرین آپ نے محدث اوکاڑی کے تعصب کا کرشمہ دیکھ لیا کہ جس حدیث کی سند میں چاروں ضعیف تھے وہ صحیح بن گئی اور بیس رکعت تراویح کی حدیث کو اس لیے ضعیف کہہ کر ٹال دیا کہ اُس میں ایک راوی ابو شیبہ ضعیف ہے ۔ حدیث ابن عباس : عن ابن عباس ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یصلی فی رمضان عشر ین رکعةً سوی الوتر ۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ رمضان المبارک میں وتر کے علاوہ بیس رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے۔(سنن کبرٰی بیھقی ج٢ ص٤٩٦ مصنف ابن ابی شیبہ ۔طبرانی ،مسند عبدبن حمید) اس حدیث کی سند ملاحظہ ہو : اخرج ابو بکر بن ابی شیبہ فی مصنفہ حدثنا یزید بن ہارون قال اخبرنا ابراہیم بن عثمان عن الحکم مقسم عن ابن عباس الخ (التعلیق الحسن ج٢ ص٥٦) معزز ناظرین محدث عبدالجبار صاحب کو جابر والی حدیث میں چار راویوں کامجروح ہونا تو نظر نہ آیا چار راوی مجروح ہوتے ہوئے حدیث کو صحیح کہہ دیا اور اس بیس رکعت والی روایت میں ابراہیم بن عثمان ابو شیبہ کو ضعیف کہہ کر جواب سے سبک دوش ہو گئے حالانکہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمةاللہ علیہ فرماتے ہیں ابو شیبہ آں قدر ضعف نہ دارد کہ روایت او مطروح ساختہ شود (فتاوٰی عزیزی)اور شاہ صاحب کی بات بالکل حق ہے کیونکہ کسی راوی میں جرح دو باتوں پر کی جاتی ہے باعتبار عدالت کے یا حفظ و ضبط کے۔ ابو شیبہ کی عدالت کے متعلق حضرت یزید بن ہارون جو امام بخاری کے