ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2002 |
اكستان |
|
عشا ء کی نماز میں تاخیر افضل ہے اور اس کی وجہ : طریقہ یہ تھا کہ عشاء کی نمازدیر سے پڑھتے تھے جیسے یہ رائیونڈ یا بلا ل پارک میں تبلیغی جماعت والے حضرات کرتے ہیں کہ رات کو عشا ء کی نماز میں خاصی دیر ہو جاتی ہے ۔کھانا وغیرہ بھی کھا لیتے ہیں پھر نماز پڑھتے ہیں ۔یہ طریقہ جناب رسول اللہ ۖ کے پسندکردہ طریقے کے قریب ہے ۔ شروع وقت میں پڑھنے کی وجہ : اور آپ نے جو اس کو شروع وقت میں پڑھا ہے تو یہ فرما کر پڑھا ہے کہ اگر میں اپنی اُمت کے لیے یہ شاق نہ سمجھتا کہ ان کو مشقت ہو گی تو رات کے تین حصے کر لیے جائیں توثلث لیل تک میں عشا ء کی نمازرکھتا ، گویا پسند یہی تھا اور اس میں فائدہ ظاہرہے کہ عبارت کرے گا پھر سو جائے گا گویا سونا جو ہوا وہ عبادت کے بعد ہوا اب ہرسونے والا صبح کو ضرورہی اُٹھ جائے یہ تو نہیں ہوتا کوئی کوئی ایسا بھی ہوتا ہے کہ سویا ہے تو سوتا ہی رہ گیا تو گویاعباد ت کے بعد سویا ۔اس واسطے ایک تو اس کا موخر کر نا پسند تھا دوسرے یہ پسند تھا کہ اس کے بعد باتیں نہ کی جائیں کیونکہ اگر باتیں کی گئیں تو پھر سونا ہوگا باتوں کے بعد، وہ نہیں ہونا چاہیے ،سوناہونا چاہیے عبادت کے بعد ۔ عشاء کے بعد گفت و شنید کی حیثیت : تو اس میں یہ بحث آتی ہے کہ کیا بالکل ہی منع ہے یاکبھی ایسے کیا ہے رسول اللہ ۖ نے کہ عشاء کے بعد باتیں کی ہوں۔ کہتے ہیں رات کو جو باتیں کی جاتیں ہیں اور قصے کہانیاں جیسے سُنائے جاتے ہیں وہ عربوںکا رواج تھا چاندنی راتیں ہوتی تھیں بہت ٹھنڈی ہوتی تھیں تو وہاں بیٹھ جاتے تھے باتیں کرتے رہتے تھے ایسے ہی جو سردار تھے اُن کے پاس جو آگئے وہ جیسے یہاں دیہات میں سمجھ لیجئے کہ حقہ چل رہا ہے بیٹھے ہیںباتیں ہو رہی ہیں اور جب تھک گئے تو جو تھکتا گیا وہ چلا گیا اور سو گیا، اسی طرح وہاں سرداروں کے ہاں بھی ہوتا تھا اُسے منع فرمایا کہ یہ نہیں یہ تو سونا ہوا انسان کا لغویات کے بعد، ادھر اُدھر کے خیالات کے بعد جیسے کوئی ناول پڑھتا ہوا سو جائے افسانہ پڑھتا ہوا سو جائے تو یہ کیا با ت ہوئی یہ غلط ہے ،تو کیا باتیں مطلقاً منع ہیں یا کسی قسم کی باتیں جائز بھی ہیں توجو ازِسمر کے لیے استدلال کرتے ہیں اس واقعہ سے جو حضرت عبداللہ ابن عباس سُنا رہے ہیں کہ پھر آپ تشریف لائے اور پوچھا بچہ سو گیا اور پھر حدیث میں یہ آیا ہے فتحدث مع اہلہ ساعة کہ گھر والوں کے ساتھ کچھ دیر آپ نے بات کی یعنی اہلیہ محترمہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے تو معلوم ہواکہ عشاء کے بعد گفتگو بالکل نہ کرنا یہ حکم نہیں ہے گفتگو کر سکتا ہے ۔