ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2002 |
اكستان |
|
حکم : زکوة دینا فرض ہے ۔قرآن مجید کی آیتوں اور آنحضرت ۖ کی حدیثوں سے اس کی فرضیت ثابت ہے جو شخص زکٰوة فرض ہونے سے انکار کرے وہ کافرہے۔ شرطیں : مسلمان ،آزاد ، عاقل ، بالغ ہونا ، نصاب کا مالک ہونا ، نصاب کا اپنی حاجتوں سے زیادہ او ر قرض سے بچا ہوا ہونا اور مالک ہونے کے بعد نصاب پر ایک سال گزر جانازکٰوة فرض ہونے کی شرطیں ہیں ۔ پس کافر ،غلام ، مجنوں اور نابالغ کے مال میںزکٰوة فرض نہیں ہے ۔ اسی طرح جس کے پاس نصاب سے کم مال ہو یا مال تو نصاب کے برابر ہے لیکن وہ قرض دار بھی ہے یا مال سال بھر تک باقی نہیں رہا ، تو ان حالتوں میں بھی زکٰوة فرض نہیں ہے۔ مال ،زکٰوة او ر نصاب کس کس مال میں زکٰوة فرض ہے : (١) مالِ تجارت میں (٢) سونے اورچاندی میں (٣) سونے چاندی سے بنی ہوئی تمام چیزوں میں ، جیسے اشرفی ، روپے ،زیور، برتن ، گوٹہ ،ٹھپہ ،آرائشی سامان وغیرہ ،ان سب میں زکٰوة فرض ہے۔ سرکاری نوٹ : سرکاری نوٹ رسید کی حیثیت رکھتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ جتنے کے نوٹ ہیں اتنی رقم آپ کی سرکاری بنک میں جمع ہے ۔پس اگر یہ رقم بقدر نصاب ہے تو زکٰوة واجب ہوگی ۔ جواہرات : سُچے موتی یا جواہرات پر زکٰوة فرض نہیں چاہے کتنی ہی مالیت کے ہوں البتہ اگر تجارت کے لیے ہوں تو زکٰوة فرض ہے۔ برتن اور مکانات وغیرہ : تانبے وغیرہ کے برتن ،کپڑے ،مکان، دکان ،کارخانہ ، کتابیں ،آرائشی سامان (جو سونے چاندی کانہ ہو )