ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2002 |
اكستان |
|
''ایک مرتبہ حضرت امام ابو یوسف نے اپنی علمی مجلس میں اپنے ایک شاگرد کو مسلسل خاموش بیٹھے ہوئے دیکھا تو اس سے فرمایا :یہاں بیان کی جانے والی باتوں میںسے کوئی بات تمہاری سمجھ میں نہ آئے یا کوئی مسئلہ تمہیں مشکل معلوم ہو رہا ہو تو اس کے بارہ میں پوچھ لینا شرمانا نہیں ، کیونکہ کسی حل طلب بات میں سوال کرنے سے شرمانا علم سے باز رکھتا ہے ۔ اُس وقت حضرت امام ابو یوسف روزہ کی تعریف میں گفتگو فرما رہے تھے چنانچہ جب اُنہوں نے فرمایاکہ روزہ صبح سے شروع ہوتا ہے اور غروب آفتاب تک رہتا ہے تو اسی شاگرد نے سوال کیا کہ حضرت : اگر آفتاب غروب ہی نہ ہو تو پھر روزہ کب تک رہے گا ؟ حضرت امام ابو یوسف نے (اس کا جاہلانہ سوال سن کر )فرمایا : چپ رہو تمہارا چپ رہنا اس سے کہیں بہترہے کہ تم بولو'' ١ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔ ''ایک لڑکی کی شادی ہوئی ماں نے رخصت کے وقت وصیت کر دی کہ بیٹی ساس کے گھر جاکر بولنا مت، اب بہو ہے کہ بولتی ہی نہیں ساس نے کہا کہ بہو بولتی کیوں نہیں؟ کہا کہ میری ماں نے منع کر دیا تھا کہ سا س کے گھر بولنا مت ۔ ساس نے کہا کہ ماں تیری بے وقوف ہے تو بول ،کہا کہ بولوں ، ساس نے کہا کہ ضرور بول ، کہاکہ میں یہ پوچھتی ہوں کہ اگر تمہارا بیٹا مر گیا اور میں بیو ہ ہو گئی تو مجھ کو یونہی بٹھلا رکھوگی یا کہیں نکاح بھی کردوگی ؟ ساس نے کہا تیری ماں نے سچ کہا تھا کہ تو خاموش رہ''۔ ٢ اہلِ بیت کا اندازِ سخاوت : شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب تحریر فرماتے ہیں : (١) حضرت ابن عباس سے نقل کیا گیا کہ حضر ت حسن ، حضرت حسین ایک مرتبہ بہت بیمار ہو گئے تو حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما نے نذر(منت) مانی کہ اگر یہ تندرست ہو جائیں تو شکرانہ کے طور پر تین تین روزے دونوں حضرات رکھیں گے۔ اللہ تعالی شانہ کے فضل سے صاحب زادوں کو صحت ہو گئی ،ان حضرات نے شکرانہ کے روزے رکھنے شروع فرمادئیے مگر گھر میں نہ سحر کے لیے کچھ تھا نہ افطار کے لیے، فاقہ پر روزہ شروع کر دیا ۔صبح کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ ایک یہودی کے پاس تشریف لے گئے جس کا نام شمعون تھا کہ اگر تو کچھ ُاون دھاگا بنانے کے لیے ١ مظاہرحق جدید ج٤ ص٦٠٥ ٢ حضرت تھانویکے پسندیدہ واقعات ص٢٤١