ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2002 |
اكستان |
|
حاصل مطالعہ (حضرت مولانا نعیم الدین صاحب) حسنِ سوال : حدیث شریف میں آتا ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں حضور اکرم ۖ نے فرمایا : ''اَلِْاقْتِصَادُ فِی النَّفَقَةِ ِنصْفُ الْمَعِیْشَةِ وَالتَّوَدُّدُ اِلَی النَّاسِِ نِصْفُ الْعَقْلِ وَحُسْنُ السَّوَالِ نِصْفُ الْعِلْمِ'' ١ اخراجات میں میانہ روی اختیار کرنا نصف معیشت ہے ،لوگوں سے دوستی رکھنا نصف عقل ہے اور خوبی کے ساتھ سوال کرنا نصف علم ہے۔ اس حدیث شریف کے تیسرے جُز میں حسنِ سوال کو نصف علم بتلایا گیا ہے ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ جو شخص خوب سوچ سمجھ کراور صحیح انداز میں سوال کرتا ہے اُس کے بارے میں یہی سمجھا جاتا ہے کہ یہ شخص علمی ذوق کا حامل ہے اور علم میں اپنا کچھ حصہ ضرور رکھتا ہے او ر اس بات کا خواہش مند ہے کہ اپنے ناقص علم کو پور اکرے لہٰذا اُس کے سوال کو نصف علم کہنا مناسب ہوگا ۔اس کے بر خلاف جو شخص بغیر سوچے سمجھے اور خراب انداز میں بات کرتا ہے وہ اپنے اس سوال کے ذریعہ اپنے نقصانِ عقل و کمال اور جہالت پر دلالت کرتا ہے۔ حاصل یہ کہ سوال کی نوعیت او ر سوال کرنے کا انداز سوال کرنے والے کی شخصیت و حالت پر بذاتِ خود دلالت کرتا ہے اور اس کے سوال کی روشنی میں یہ انداز ہ لگانا مشکل نہیں ہوتا کہ یہ شخص بالکل ہی جاہل ہے یا علم سے کچھ سروکار رکھتا ہے۔ جس شخص میں علم و عقل کی روشنی ہو گی اُس کا سوال بھی عالمانہ و عاقلانہ ہو گا اور جو شخص نرا جاہل ہو گا اُس کی اور باتوں کی طرح اُس کا سوال بھی جاہلانہ او ر عامیانہ ہو گا۔ کتاب و سنت اور تاریخ کے اندر بہت سے عالمانہ سوالات موجود ہیں جن سے سائلین کی علمی لیاقت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اس موقع پر جاہلانہ سوالات کی ایک جھلک قارئین کی ضیافت کے لیے پیش کی جاتی ہے۔ ١ شعب الایمان للبیہقی بحوالہ مشکوٰة ص ٤٣٠