ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2002 |
اكستان |
|
زکٰوة سے وہ لوگ مراد ہیں جن کو زکٰوة دینا جائز ہے۔ مصارفِ زکٰوة کون کون ہیں؟ : (١) فقیر یعنی وہ شخص جس کے پاس کچھ تھوڑا سامال و اسباب ہے لیکن نصاب کے برابر نہیں ۔ (٢) مسکین یعنی جس شخص کے پاس کچھ بھی نہیں۔ (٣) قرضداریعنی وہ شخص جس کے ذمہ لوگوں کا قرض ہو اور اس کے پاس قرض سے بچا ہو ا بقدرِ نصاب کوئی مال نہ ہو۔ (٤) مسافر جو حالت سفر میں تنگ دست رہ گیا ہو اسے بقدر حاجت زکٰوة دے دینا جائز ہے۔ کن لوگوں کو زکٰوة دینا جائز نہیں : (١) مالدار کو یعنی اس شخص کو زکٰوة دینا جائز نہیں ہے جس پر خود زکٰوة فرض ہے۔ یا اس کے پاس نصاب کے برابر قیمت کا کوئی اور مال موجود ہے اور اس کی حاجت اصلیہ سے فاضل ہے ۔ جیسے کسی کے پاس تانبے کے برتن روز مرہ کی ضرورت سے زائد رکھے ہوئے ہیں اور اُن کی قیمت بقدرِ نصاب ہے ۔اس پر اگرچہ ان برتنوں کی زکٰوةدینی واجب نہیں ہے مگر اس کو زکٰوة کا مال لینا بھی حلا ل نہیں ہے۔ (٢) سیّد اور بنی ہاشم کو زکٰوة دینی جائز نہیں ہے ۔اُن کی اگر خدمت کرنی ہے تو زکٰوة کے علاوہ کوئی اور رقم بطور ہدیہ پیش کیجئے ۔ آنحضرت ۖ سے ان کو جو خاندانی نسبت ہے اس کے احترام کا یہی تقاضا ہے ۔ تشریح : بنی ہاشم سے حضرت حارث بن عبدالمطلب ، حضرت جعفر ، حضرت عقیل ، حضرت عباس اور حضرت علی کی اولاد مراد ہے ۔(رضوان اللہ علیھم اجمعین) (٣) اپنے ماں باپ ،دادا دادی ، نانانانی وغیرہ جو ان سے اُوپر کے ہوں ۔ (٤) بیٹا ،بیٹی ، پوتا، پوتی ، نواسا، نواسی وغیرہ جو ان سے نیچے ہوں ۔ (٥) خاوند اپنی بیوی کو اور بیوی اپنے خاوند کو بھی زکٰوة نہیں دے سکتی ۔ (٦) غیر مسلم (٧) مالدار آدمی کی نابالغ اولاد ۔ان تمام لوگوں کو زکٰوة دینی جائز نہیں ہے۔ کن کاموں میں زکٰوة کا مال خرچ کرنا جائز نہیں ہے : جن کاموں میں کسی مستحق کو مالک نہ بنایا جائے ۔اُن میں مال زکٰوة خرچ کرنا جائز نہیں ہے۔ جیسے میت کے گوروکفن میںلگا دینا یا میت کا قرض ادا کرنا یا مسجد کی تعمیر یا مدرسہ کی تعمیر ، مسجد یا مدرسہ کا فرش، لوٹوں یا پانی یا چٹائی وغیرہ یا