ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2002 |
اكستان |
|
بہت بڑا اعزاز ہیں اور دُنیا کا نہیں آخرت کا بھی اعزاز ہے ۔حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو دو دفعہ دیکھا ہے۔رای جبرئیل علیہ السلام مرتین ودعا لہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مرتین اور دومرتبہ میرے لیے جناب رسول اللہ ۖ نے دُعا فرمائی ۔ایک حدیث میں ہے وہ فرماتے ہیں کہ میرے واسطے رسول کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم نے یہ دُعا فرمائی ان یؤ تینی اللّٰہ الحکمة کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو حکمت عطا فرمائیں حکمت کا مطلب : اب حکمت کے معنی مختلف ہیں یعنی لوگوں نے اس کا استعمال مختلف رکھا ہے ۔حکیم کے معنی سمجھتے ہیں کہ جو عقل مند ہو،حکیم کے معنی فلسفی بھی ہیں جو فلسفہ سے واقف ہو اورحکیم طبیب کو بھی کہنے لگے تو پہلے جو حکیم کے معنی تھے وہ فلسفی کے تھے اور شریعت میں کیا معنی ہوتے ہیں اُ س کی امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے تفسیر کی ہے انھوں نے کہا الحکمة الا صابة فی غیر النبوة ١ یعنی نبی نہ ہو مگر صحیح بات تک پہنچ جائے ایسے صحیح بات تک پہنچ جاتا ہو کہ جو عنداللہ بھی صحیح ہو تو یہ کام تو انسان کے اپنے بس کا نہیں ہے یہ تو خدا کی طرف سے عطا ہو تو ہوتا ہے ۔کوئی گفتگو کی جا رہی ہو تو صحیح نتیجہ تک پہنچے ،کوئی عبارت سامنے آئے تو اس کا صحیح مطلب سمجھے ، قرآن پاک کی کوئی آیت آئے تو صحیح مطلب سمجھے اور اس کی گہرائی تک پہنچے تو حکمت کی دعا فرمادی اور قرآن پاک میں آتا ہے من یوتی الحکمة فقد اوتیی خیرا کثیرا جس کو حکمت عطا ہو گئی تو اُ س کو بہت بڑی بھلائی عطا ہو گئی، تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر انسان ایسا ہوجائے کہ وہ تمام چیزوں میں صحیح چیز تک پہنچ جاتا ہوتو یہ بہت بڑی بات ہے بہت بڑی استعداد ہے اور خدا کا اس پربڑا فضل ہے خصوصاً جبکہ دین کی باتوںمیں صحیح چیز تک پہنچ جاتا ہو۔ رات گزارنے کی اجازت اور دُعاء : ایک دعا فرمائی تھی اللّٰھم علمہ الکتاب وہ الگ آتی ہے اس میں یہ ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عباس اور حضرت خالدابن الولید یہ دونوں خالہ زاد بھائی تھے تو ایک بہن تو بیاہی گئی تھیں بنو اُمیہ میں تو حضرت خالد ابن ولید یہ اُموی ہیں اور دوسری جناب رسول اللہ ۖ کی اہلیہ محترمہ تھیں ان کا نام میمونہ تھا ا ور تیسری بہن حضرت عباس کے پاس اُن کے نکاح میں تھیں ،تو اُ ن کو موقع مل گیا اُس وقت تک یہ بچے تھے بالغ نہیں تھے اور اگر بالغ ہوتے بھی تو بھی خالہ ہیں، اُن کے پاس رات گزارنے کی اجازت چاہی اور اجازت یوں چاہی کہ جس دن جناب سول اللہ ۖ کی باری آپ کے ہاں ہو میں اُس دن رہنا چاہتا ہوں رات کو ،تاکہ میں یہ دیکھوں کہ جناب رسول اللہ ۖ کیا کرتے ہیں رات کیسی گزارتے ہیں تو آقائے نامدار ۖ گھر میں تشریف لائے تو ان کو دیکھا اور پھر آپ نے پوچھا یہ سو گئے نَامَ الغُلَیَّمُ ٢ بچہ سو گیا ؟ تو پھر آپ نے کچھ دیر گھر والوں سے گفتگو کی ۔ ١ بخاری شریف ج١ ص٥٣١ ٢ بخاری شریف ج١ ص٢٢