ترشوائیں ، ایک حدیث میں آیا ہے کہ اہل عجم ایک دوسرے کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں ، مسلمانوں کو ایسا نہ کرنا چاہئے۔
واقعہ یہ ہے کہ ظاہری مشابہت باطنی محبت وتعلق کا سبب بن جاتی ہے اوربہت ممکن ہے کہ اخلاق وعادات میں غیروں کی پیروی خدا نخواستہ عقائد میں پیروی کا باعث بن جائے۔
اسلام میں خوشی کے تہوار ( عید الفطر وعید الاضحی) بھی اس کی انفرادیت کا مظہر ہیں ، روایات میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو اہلِ مدینہ دو تہوار منایا کرتے تھے اور ان میں کھیل تماشے کیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے تہواروں کی حقیقت وحیثیت کے بارے میں سوال کیا، انھوں نے عرض کیا کہ ہم جاہلیت میں اسی طرح تہوار منایا کرتے تھے، آپؐ نے فرمایا :
اللہ نے تمہارے ان دونوں تہواروں کے بدلہ میں ان سے بہتر دو دن تمہارے لئے مقرر کردئیے ہیں ۔ ایک عید الفطر ، دوسرے عید الاضحی۔ (سنن ابی داؤد)
چونکہ تہوار ہر قوم کے عقائد وتصورات اورقومی مزاج کے ترجمان ہوتے ہیں اس لئے اسلام نے جاہلیت کے تہواروں کو ختم کرکے ایسے اسلامی تہوار مقرر فرمادیئے جو اسلام کے توحیدی عقائد ومزاج کے بالکل موافق ہیں ۔
جنگوں اور معرکوں میں شکست کے موقعہ پر عموماً لوگ دلبرداشتہ، بزدلی کے شکار اور پست حوصلہ وقنوطی ہوجاتے ہیں ، مگر ایسے موقعوں پر بھی اسلام کا امتیازی موقف ہے کہ :
لاَ تَہِنُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَأَنْتُمُ الأَعْلَوْنَ إِنْ کُنْتُمْ مُّؤمِنِیْنَ، إِنْ یَمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُہُ، وَتِلْکَ الأَیَّامُ نُدَاوِلُہَا